کتاب: حقوق مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم اور توہین رسالت کی شرعی سزا - صفحہ 288
خزرج کے بنی سلمہ خاندان سے چند آدمی روانہ ہوئے جن کی سربراہی نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن عُتیک رضی اللہ عنہ کو سونپی تھی۔ انھوں نے اس کے قلعے میں گھس کر اپنی تلوار سے اسے واصلِ جہنم کیا تھا۔ اسے قتل کرکے انھوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا:
((اِنْطَلِقُوْا فَبَشِّرُوْا رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ ))
’’تم جاؤ اور جاکر (ابو رافع کی ہلاکت کی) خوش خبری نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دے دو۔‘‘
اور پھر وہ خود بھی اپنے ساتھیوں سے پہلے ہی پہنچ گئے اور فرماتے ہیں :
((فَبَشَّرْتُہٗ))[1]
’’میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو (اس کے واصلِ جہنم ہونے کی) بشارت دی۔‘‘
اس حدیث میں ناموسِ رسالت کے درپے ہونے والے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گستاخ و اذیت رساں شخص کے قتل کی اطلاع کو عام خبر نہیں بلکہ بشارت و خوشخبری کے الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔
۳۶۔ اسود عنَسی: گستاخانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی میں سے ایک شخص اسود عنسی بھی تھا جس کا تعلق یمن سے تھا اس نے بھی مسیلمہ کذّاب کی طرح نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرکے توہینِ رسالت کا ارتکاب کیا تھا۔ وہ بدبخت اپنی جادوگری، شعبدہ بازی اور طلسموں کے ذریعے لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکا کرتا تھا۔[2]
قصرِ نبوت میں اس کے نقب زنی کرنے کا ذکر بھی خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری و مسلم، نسائی، ابن ماجہ اور مسند احمد میں ارشادِ نبوی ہے:
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (3022، 4040، کتاب المغازي)
[2] مختصر ابن کثیر (3؍374)