کتاب: حقوق مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم اور توہین رسالت کی شرعی سزا - صفحہ 287
وَ الثَّارِدَاتُ ثَرْدًا، وَ الْلَّاقِمَاتُ لُقَمًا۔‘‘[1] ’’اور قسم ہے دانے پیسنے والیوں کی اور قسم ہے آٹاگوندھنے والیوں کی اور قسم ہے روٹی پکانے والیوں کی اور قسم ہے ثرید [گوشت روٹی سے تیار کردہ ایک عربی کھانا] بنانے والیوں کی اورقسم ہے لقمے کھلانے والیوں کی۔‘‘ اس کے ان جملوں کو پڑھنے والا بآسانی سمجھ سکتا ہے کہ اس نے یہ جملے تیسویں سپارے کی سورۃ العادیات {وَ الْعَادِیَاتِ ضَبْحًا۔۔۔} کے مقابلے میں گھڑے تھے۔ معرکہ یمامہ میں اس کو جب حضرت وحشی رضی اللہ عنہ نے قتل کیا تھا اس وقت اس کی عمر ایک سو پچاس (150) سال تھی۔ اس معرکۂ یمامہ میں مسلمانوں میں سے پانچ یا چھ سو مجاہدین شہید ہوئے اور کفار کے دس ہزار اور ایک قول میں 21 ہزار آدمی مارے گئے تھے۔[2] ۳۵۔ ابو رافع سلام بن ابی الحقیق: گستاخانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی میں سے ایک یہودی ابو رافع سلام بن ابی الحُقیق بھی تھا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت پہنچایا کرتا تھا۔ مدینہ منورہ کے دوبڑے قبیلوں میں سے قبیلہ بنی اوس کے ہاتھوں تو کعب بن اشرف یہودی واصلِ جہنم ہوا تھا۔ اب قبیلہ بنی خزرج نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایذا رسانی میں دوسرا بڑا شریر یہودی یہ شخص ہے۔ یہ دونوں قبیلے (اوس و خزرج) کارِ خیر میں ایک دوسرے کا مقابلہ کرنے میں لگے رہتے تھے۔ چنانچہ بنی خزرج نے اسے قتل کرنے کی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دے دی۔ اب قبیلہ بنی
[1] بحوالہ البدایۃ (5؍52) [2] تفصیل کے لیے دیکھیں : البدایۃ والنہایۃ (6؍323۔ 327)