کتاب: حقوق مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم اور توہین رسالت کی شرعی سزا - صفحہ 286
تاہم امام سہیلی کے بقول تویہ سجاح حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں مسلمان ہوگئی تھی جس پر وہ تاحیات قائم رہی اور ایک اچھی مسلمان ثابت ہوئی تھی۔[1]
غرض مسیلمہ نے اپنا خط دے کر دو قاصد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ارسال کیے تھے جس میں اس نے کہا کہ میں بھی منصبِ نبوت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حصہ دارہوں۔ یہ منصب ہمارے [بنی حنیفہ] اور قریش کے مابین آدھا آدھا مشترک ہے۔اور اس کے اس خط کے جواب میں ۱۰ھ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسے مکتوبِ گرامی ارسال فرمایا تھا اور یہ دونوں خط کتبِ حدیث اور تاریخ و سیرت میں موجود و محفوظ ہیں۔[2]
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں قاصدوں سے پوچھا ’’کیا تم بھی اس [مسیلمہ] کی نبوت کو مانتے ہو؟‘‘ انھوں نے ہاں میں جواب دیا تو مسند احمد اور معجم طبرانی کبیر کی صحیح سند سے ثابت حدیث کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا:
((لَوْ لَا أَنَّ الرُّسُلَ لَا تُقْتَلُ، لَضَرَبْتُ أَعْنَاقَکُمَا)) [3]
’’اگرکبھی قاصدوں کو قتل نہ کرنے کا دستور نہ ہوتا تو میں تم دونوں کی گردنیں اڑادیتا۔‘‘
امام بیہقی سے نقل کرتے ہوئے امام ابن کثیر نے لکھا ہے کہ اس نے قرآنِ کریم کے مشابہ کچھ فقرے گھڑلیے تھے جنہیں وہ قرآن باور کروایا کرتا تھا، اور انھی فقرات میں سے یہ بھی ہیں :
’’ وَ الطَّاحِنَاتُ طَحْنًا، وَ الْعَاجِنَاتُ عَجْنًا، وَ الْخَابِزَاتُ خُبْزًا،
[1] بحوالہ البدایۃ (5؍51)
[2] دیکھیے: البدایۃ والنھایۃ (5؍51،6؍200)
[3] صحیح الجامع الصغیر (5320) والبدایۃ (5؍51)