کتاب: حقوق مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم اور توہین رسالت کی شرعی سزا - صفحہ 285
جب تک میں اسے دیکھ نہ لوں، رسول اللہ نہیں کہہ سکتا، جب مسیلمہ آیا تو اس بدو نے کہا: کیا تم مسیلمہ ہو؟ اس نے کہا: ہاں، اس نے پوچھا : تمھارے پاس کون آتا ہے ؟ اس نے جواب دیا: رِجس۔ اس نے سوال کیا: روشنی میں یا اندھیرے میں ؟ اس نے جواب دیا: اندھیرے میں۔ یہ سن کر اس بدو نے کہا:
’’میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ تو کذّاب و جھوٹا ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم صادق و سچے ہیں، لیکن بنو ربیعہ کا کذّاب بھی ہمیں بنو مضر کے صادق سے زیادہ محبوب ہے۔‘‘
اس نسلی و قبائلی عصبیت میں مبتلا اس ملعون و گنوار بدو نے کذاب کی پیروی قبول کرلی اورمعرکۂ عقربا کے دن اسی کے لیے لڑتا ہوا مارا گیا۔[1] لَا رَحِمَہٗ اللّٰہُ
اس خبیث نے صرف نبوت کا جھوٹا دعویٰ ہی نہیں کیا تھا بلکہ یہ اپنے آپ کو رحمن بھی کہلواتا تھا اور رحمان الیمامہ کے نام سے پہچانا جاتا تھا۔ اس نے اور بھی کئی دعوئے کیے تھے۔[2]
اس مسیلمہ کذّاب کے زمانے ہی میں ایک عرب عیسائی عورت سجاح بنت الحارث بن سوید التغلبیہ نے بھی نبوت کا دعویٰ کردیا تھا اور اپنی قوم و قبیلہ اور پیروکاروں کی فوج لے کر مسیلمہ پر حملہ کردیا لیکن مذاکرات کے بعد اس سے مسیلمہ کذّاب نے شادی کرلی اور وہ تین دن اس کے پاس رہ کر اپنی قوم میں لوٹ آئی تھی۔ تاریخ امام ابن کثیر کے مطابق ان دونوں کے بعض انتہائی فحش واقعات و قصص بھی رونما ہوئے جن کا تذکرہ بھی شریف آدمی کی طبیعت پر گراں گزرتا ہے۔[3]
[1] البدایۃ و النہایۃ (6؍327)
[2] دیکھیے: سیرت ابن ہشام و البدایۃ و النہایۃ لابن کثیر (5؍50)
[3] تفصیل کے لیے دیکھیے: البدایۃ و النہایۃ (6؍320۔321)