کتاب: حقوق مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم اور توہین رسالت کی شرعی سزا - صفحہ 277
’’ اِنَّ الذِّمِّيَّ اِذَا لَمْ یَکُفَّ لِسَانَہٗ عَنِ اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ فَلَا ذِمَّۃَ لَہٗ فَیَحِلُّ قَتْلُہٗ۔‘‘[1] ’’کوئی ذمی جب اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف زبان درازی سے بازنہ آئے تو اس کا معاہدہ و ذمہ ختم سمجھا جائے گا اور اس کا قتل حلال و جائز ہوگا۔‘‘ ۳۳۔ عبد اللہ بن خطل: گستاخانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی میں سے ایک شخص عبد اللہ بن خطل بھی تھا۔ فتح مکہ کے دن جن لوگوں کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمان جاری فرمایا تھا کہ انھیں کسی بھی حال میں دیکھیں توقتل کردیں، انھیں میں سے یہ بھی تھا۔ یہ پہلے مسلمان تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ایک علاقے کا عامل [گورنر]بھی بنایا تھا مگر اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی۔ اپنے غلام کو قتل کیا اور مرتد بھی ہوگیا۔ فتح مکہ کے دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خانہ کعبہ کو دار الامان قرار دیا تو یہ کعبہ شریف کے پردے سے جاکر لپٹ گیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی گئی کہ عبد اللہ بن خطل غلافِ کعبہ سے چمٹا ہوا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا: ’’ اسے وہیں قتل کردو۔‘‘ چنانچہ حضرت ابو بزرہ اسلمی اورحضرت سعد بن حریث رضی اللہ عنہما نے حجرِ اسود اور مقامِ ابراہیم کے درمیان ہی اس کی گردن اڑا دی۔ اس کی گستاخیوں کی وجہ سے حرمِ مکہ مکرمہ میں داخل ہوجانا اور خاص خانہ کعبہ کے غلاف کو پکڑ لینا بھی اسے قتل سے نہ بچا سکاتھا۔ ۳۴۔ مسیلمہ کذّاب: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے اور ختمِ نبوت میں نقب لگانے والا قبیلہ بنی حنیفہ کا ایک شخص مسیلمہ کذّاب بن ثمامہ
[1] حاشیہ سنن النسائي (4؍109 طبع بیروت)