کتاب: حقوق مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم اور توہین رسالت کی شرعی سزا - صفحہ 276
دلوایا اور آخر میں پھر کہنے لگے کہ ایک مرتبہ پھر اجازت دیں۔ اس نے کہا :شوق سے! تو انھوں نے سونگھنے کے بہانے سر کے بالوں کو مضبوطی سے پکڑلیا اور ساتھیوں سے فرمایا کہ اسے جھپٹ لو۔ اس پر انھوں نے آناً فاناً اسے قتل کردیا اور پھر آکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پورے واقعے کی خبر دے دی۔[1] یہ کعب بن اشرف اگرچہ ذمی و معاہد تھالیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی وجہ سے کوکی معاہدہ اس کی جان نہ بچا سکا۔ ایسے شخص کے قتل کے حلال ہونے کے بارے میں امام خطابی نے معالم السنن میں لکھا ہے: ’’ قَالَ مَالِکٌ:مَنْ شَتَمَ النَّبِيَّ ﷺ مِنَ الْیَہُوْدِ وَ النَّصَارٰی قُتِلَ اِلَّا أَنْ یُسْلِمَ، وَکَذٰلِکَ قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، وَ قَالَ الشَّافِعِيُّ: یُقْتَلُ الذِّمِّيُّ اِذَا سَبَّ النَّبِيَّ ﷺ وَ تَبَرَّأَ مِنْہُ الذِّمَّۃُ وَ احْتَجَّ فِيْ ذٰلِکَ بِخَبَرِ کَعْبِ ابْنِ الْأَشْرَفِ۔‘‘[2] ’’امام مالک فرماتے ہیں کہ یہود و نصاریٰ میں سے اگر کوئی شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دے تو اسے قتل کردیا جائے گا، الّا یہ کہ وہ اسلام قبول کرلے، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا بھی یہی قول ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ذمی و معاہد شخص اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دے تو اسے قتل کردیا جائے گا اور اس کا ذمہ و معاہدہ ختم ہوجائے گا، اور انھوں نے اپنی اس بات کی دلیل کے طور پر کعب ابن اشرف یہودی کے قتل والی حدیث کو پیش کیا ہے۔ ‘‘ جبکہ سنن نسائی کے حاشیہ میں علامہ سندھی لکھتے ہیں :
[1] صحیح البخاري (4037) صحیح مسلم (1801) [2] معالم السنن للخطابي مع مختصر سنن أبي داود (6؍199)