کتاب: حقوق مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم اور توہین رسالت کی شرعی سزا - صفحہ 274
’’اس پر محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ اٹھے اور انھوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں حاضر ہوں، کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے ہیں کہ میں اسے قتل کردوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہاں۔‘‘
حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے اس گستاخِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے کس حکیمانہ و دانشمندانہ انداز سے قتل کیا اس کی تفصیل صحیح بخاری و مسلم کے ’’باب قتل کعب بن الأشرف‘‘ میں مذکور ہے۔ چنانچہ حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم کو نافذ کرنے کے لیے ہمیں کچھ خلافِ واقعہ باتیں کہنے کی ضرورت پیش آئے گی لہٰذا: ((فَأْذَنْ لِیْ أَنْ أَقُوْلَ شَیْئاً))
’’مجھے اجازت دیں کہ میں ایسی کوئی بات کہہ سکوں۔‘‘
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت مرحمت فرمائی کہ جو چاہو کہہ لینا۔
حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کعب کے پاس گئے اور کہنے لگے کہ یہ شخص (نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم ) ہم سے صدقہ مانگ رہا ہے اور اس نے ہمیں تنگ کررکھا ہے۔ کعب نے کہا: ابھی تو کچھ بھی نہیں آگے چل کر یہ شخص ایسا ہے کہ تم اس سے اُکتا جاؤ گے۔ حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: فی الوقت تو میں تمھارے پاس ادھار مانگنے کے لیے آیا ہوں۔ کعب نے کہا کہ اس کے عوض میں تمھیں کچھ گِروی رکھنا ہوگا۔ انھوں نے پوچھا کہ کیا گِروی رکھنا چاہتے ہو؟ اس بدبخت نے کہا کہ اپنی عورتیں گِروی رکھ دو۔ انھوں نے کہا کہ بھلا اپنی عورتوں کو کیسے رہن رکھ سکتے ہیں ؟ غیرت و حمیت گوارا نہیں کرتی۔
غرض ان کے پس و پیش کرنے پر کہنے لگا کہ اپنے بچے گِروی رکھ دو۔ اس پر انھوں نے کہا کہ کل کلاں کو یہ واقعہ بچوں کے لیے باعثِ عار بن جائے گا