کتاب: حقوق مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم اور توہین رسالت کی شرعی سزا - صفحہ 273
نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیش گوئی بھی پوری ہوگئی اور اس خاندان کے ہاتھ سے حکومت ہی جاتی رہی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مکتوبِ گرامی کو پھاڑنے کی سزا یہ ملی کہ حکومت پارہ پارہ ہوتے ہوتے ہمیشہ کے لیے ہاتھ ہی سے نکل گئی۔[1] ۳۲۔ کعب ابن اشرف: گستاخانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ہی سے ایک کعب بن اشرف بھی تھا۔ یہ یہودی مدینہ منورہ میں رہتا تھا اور اس وقت وہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے علاوہ صرف وہ لوگ رہتے تھے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے معاہدہ کرچکے تھے لیکن اس کعب یہودی کو ذمی و معاہد ہونے کے باوجود قتل کردیا گیا کیونکہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ہجو گوئی، سب و شتم، دریدہ دہنی، غدر و دھوکہ دہی، نقضِ عہد، قتلِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی سازشیں، مسلمان عورتوں کے حسن و جمال کے معیوب تذکرے، اسلام پر طعن، لوگوں کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں جنگ پر اکساتا و ابھارتا اور دیگر گستاخیاں کیا کرتا تھا۔ معاہدے کا یہ معنی تو نہیں تھا کہ وہ ناموسِ رسالت پر ہاتھ ڈالتا پھرے اور شانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم میں گستاخیاں کیاکرے۔ چنانچہ صحیح بخاری و مسلم میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اس کی بدزبانیوں اور گستاخیوں کے نتیجہ ہی میں نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا : ((مَنْ لِکَعْبِ اِبْنِ الْأَشْرَفِ فَاِنَّہٗ قَدْ آذٰی اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ؟)) ’’کون ہے جو کعب بن اشرف کو ٹھکانے لگائے؟ کیونکہ اس نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت پہنچائی ہے۔‘‘ (( فَقَامَ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَۃَ فَقَالَ: أَنَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ، أَتُحِبُّ أَنْ أَقْتُلَہٗ ؟ قَالَ: ((نَعَمْ))
[1] فتح الباري (8؍127۔128)