کتاب: حقوق مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم اور توہین رسالت کی شرعی سزا - صفحہ 271
’’اللہ رحمن رحیم کے نام سے محمد رسول اللہ کی طرف سے کسرٰی بزرگ فارس کے نام۔ سلام اس پر جو سیدھے راہ پر چلتا اور اللہ اور رسول پر ایمان لاتا ہے۔ اور یہ شہارت ادا کرتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد اس کا بندہ و رسول ہے۔ میں تجھے اللہ کے پیغام کی دعوت دیتا ہوں اور میں اللہ کا رسول ہوں۔ مجھے جملہ نسلِ آدم کی طرف بھیجا گیا ہے تاکہ جو کوئی زندہ ہے اُسے عذابِ الٰہی کا ڈر سنا دیا جائے۔ اور جو منکر ہیں ان پر اللہ کا قول پورا ہو۔ تُو مسلمان ہو جا۔ سلامت رہے گا ورنہ مجوس کا گناہ تیرے ذمہ ہوگا۔‘‘ خسرو نے نامہ ٔمبارک دیکھتے ہی غصّے سے چاک کرڈالا اور زبان سے کہا: ’’میری رعایا کا ایک ادنیٰ شخص مجھے خط لکھتا ہے اور اپنا نام میرے نام سے پہلے تحریر کرتا ہے۔ ‘‘ اس کے بعد خسرو نے باذان کو، جو یمن میں اس کا وائسرائے (نائب السلطنت)تھا اور عرب کے تمام ملک کو اسی کے زیرِ اقتدار یا زیرِ اثر سمجھا جاتا تھا، یہ حکم بھیجا کہ اس شخص (نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) کو گرفتار کرکے میرے پاس روانہ کردو۔ باذان نے ایک فوجی دستہ مامور کیا، فوجی افسر کا نام خرخسرو تھا۔ ایک ملکی افسر بھی ساتھ روانہ کیا۔ جس کا نام بانویہ تھا۔ بانویہ کو یہ ہدایت کی تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات پر گہری نظر ڈالے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کسرٰی کے پاس پہنچا دے لیکن اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ساتھ جانے سے انکار کریں تو واپس آکر رپورٹ کرے۔ جب یہ فوجی دستہ طائف پہنچا تو اہلِ طائف نے بڑی خوشیاں منائیں کہ اب محمد صلی اللہ علیہ وسلم ضرور تباہ ہوجائے گا کیونکہ شہنشاہِ کسریٰ نے اُسے گستاخی کی سزا دینے کا حکم دے دیا ہے۔