کتاب: حقوق مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم اور توہین رسالت کی شرعی سزا - صفحہ 27
سورۃ التوبہ میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض اوصافِ عالیہ کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا ہے : { لَقَدْ جَآئَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَئُ وْفٌ رَّحِیْمٌ} [التوبۃ: ۱۲۸] ’’)لوگو!) تمھارے پاس تم ہی میں سے ایک پیغمبر آئے ہیں۔ تمھاری تکلیف اُن کو گراں معلوم ہوتی ہے اور تمھاری بھلائی کے بہت خواہشمند ہیں اور مومنوں پر نہایت شفقت کرنے والے مہربان ہیں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نرم دلی اور شفقت و رحمت کا پتہ دیتے ہوئے سورۃ آل عمران میں ارشاد فرمایا: { فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَھُمْ وَ لَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ فَاعْفُ عَنْھُمْ وَ اسْتَغْفِرْلَھُمْ وَ شَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَوَکِّلِیْنَ} [آل عمران: ۱۵۹] ’’)اے نبی!) اللہ کی مہربانی سے آپ کی اُ فتادِ مزاج ان لوگوں کے لیے نرم واقع ہوئی ہے اور اگر آپ بدخو اور سخت دل ہوتے تو یہ آپ کے پاس سے بھاگ کھڑے ہوتے، تو اُن کو معاف کر دیں اور اُن کے لیے (اللہ سے) مغفرت مانگیں اور اپنے کاموں میں اُن سے مشورہ کرلیا کریں اور جب (کسی کام کا) عزمِ مصمم کر لیں تو اللہ پر بھروسا رکھیں، بیشک اللہ تعالیٰ بھروسا رکھنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔‘‘ جبکہ سورۃ البقرۃ میں فرمایا: