کتاب: حقوق مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم اور توہین رسالت کی شرعی سزا - صفحہ 263
اسی کے ایک فرد کو وحی و رسالت سے نواز دیا جاتا تھا۔ یہ اس لیے کہ اس کے بغیر کوئی رسول فریضۂ تبلیغ و دعوت ادا ہی نہیں کرسکتا تھا، مثلاً اگر فرشتوں کو اللہ تعالیٰ رسول بنا کر بھیجتا تو ایک تو وہ انسانی زبان میں گفتگو ہی نہ کرپاتے۔ دوسرے وہ انسانی جذبات سے عاری ہونے کی وجہ سے انسان کے مختلف حالات میں مختلف کیفیات و جذبات کے سمجھنے سے بھی قاصر رہتے۔ ایسی صورت میں ہدایت و راہنمائی کا فریضہ کس طرح انجام دے سکتے تھے؟ اس لیے اللہ تعالیٰ کا انسانوں پر ایک بڑا احسان ہے کہ اس نے انسانوں ہی کو نبی اور رسول بنایا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے بھی اسے بطورِ احسان ہی قرآنِ کریم میں ذکر فرمایا ہے۔
سورۃ آل عمران میں ارشادِ الٰہی ہے:
{ لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیْھِمْ وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ وَ اِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ} [آل عمران: ۱۶۴]
’’اللہ نے مومنوں پر بڑا احسان کیا ہے کہ اُن میں انھیں میں سے ایک پیغمبر بھیجا جو اُن کو اللہ کی آیتیں پڑھ پڑھ کر سناتا اور ان کو پاک کرتا اور (اللہ کی) کتاب اور دانائی سکھاتا ہے، اور پہلے تو یہ لوگ صریح گمراہی میں تھی۔‘‘
پیغمبروں کی بشریت کافروں کے لیے حیرت و استعجاب کا باعث رہی۔ وہ سمجھتے تھے کہ رسول انسانوں میں سے نہیں، فرشتوں میں سے ہونا چاہیے۔ گویا ان کے نزدیک بشریت رسالت کے شایانِ شان نہیں تھی جیسا کہ آج کل کے اہلِ بدعت بھی یہی سمجھتے ہیں۔ {تَشَابَھَتْ قُلُوْبُھُمْ}