کتاب: حقوق مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم اور توہین رسالت کی شرعی سزا - صفحہ 260
نے یہ بددعا بھی فرمائی تھی: ((اَللّٰہُمَّ أَعْمِ بَصَرَہٗ وَ أَثْکِلْ وَلَدَہٗ)) ’’اے اللہ! اس کی آنکھیں اندھی کر دے اور اس کے بچوں کو اس پر رلا۔‘‘ ۲۔ بنی زہرہ بن کلاب کا سردار اسود بن عبد غوث۔ ۳۔ بنی مخزوم بن یقظہ کا سردار ولید بن مغیرہ۔ ۴۔ بنی سہم بن عمرو کا سردار عاص بن وائل بن ہشام۔ ۵۔ بنی خزاعہ کا سردار حارث بن طلاطلہ۔ جب یہ شر کی انتہاکو پہنچ گئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بکثرت مذاق اڑانے لگے تو اللہ تعالیٰ نے سورۃ الحجر کی آیات نازل فرمائیں جن میں ارشادِ الٰہی ہے: { فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِکِیْنَ . اِنَّا کَفَیْنٰکَ الْمُسْتَھْزِئِ یْنَ . الَّذِیْنَ یَجْعَلُوْنَ مَعَ اللّٰہِ اِلٰھًا اٰخَرَ فَسَوْفَ یَعْلَمُوْن} [الحجر: ۹۴ تا ۹۶] ’’پس جو حکم آپ کو (اللہ کی طرف سے) ملا ہے وہ (لوگوں کو) سنا دیں اور مشرکوں کا (ذرا) خیال نہ کریں۔ ہم آپ کو ان لوگوں (کے شر) سے بچانے کے لیے جو آپ سے مذاق کرتے ہیں کافی ہیں۔ جو اللہ کے ساتھ دوسرے معبود قرار دیتے ہیں سو عنقریب ان کو (ان باتوں کاانجام) معلوم ہو جائے گا۔‘‘ امام ابن اسحاق لکھتے ہیں جو کہ معجم طبرانی اوسط، سنن کبریٰ بیہقی، دلائل النبوۃ ابو نعیم اور الاحادیث المختارہ للضیاء المقدسی میں بھی حسن درجہ کی سند سے مروی ہے کہ حضرت جبریل علیہ السلام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوکر کھڑے ہوگئے جبکہ یہ لوگ بیت اللہ کا طواف کررہے تھے: