کتاب: حقوق مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم اور توہین رسالت کی شرعی سزا - صفحہ 258
اور اسی پر سورۃ القلم کی آیت نازل ہوئی جن میں ارشادِ الٰہی ہے : { اِِذَا تُتْلٰی عَلَیْہِ اٰیٰتُنَا قَالَ اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ }[1] [القلم: ۵۱] ’’جب اس کو ہماری آیتیں سنائی جاتی ہیں تو کہتا ہے یہ تو اگلے لوگوں کے افسانے ہیں۔‘‘ لیکن اس آیت کے سبب اور شانِ نزول کے متعلقہ ان روایات کو غیر مستند قرار دیا گیا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ صفتِ بد کسی ایک شخص کی نہیں بلکہ اس سے مقصود عام ہے کہ جس میں بھی یہ بری صفت پائی جائے۔[2] سیرت ابن ہشام کے مطابق نضر کی اس حرکت ہی پر سورۃ الجاثیہ کی آیات نازل ہوئیں، جن میں ارشادِ الٰہی ہے : { وَیْلٌ لِّکُلِّ اَفَّاکٍ اَثِیْمٍ . یَّسْمَعُ اٰیٰتِ اللّٰہِ تُتْلٰی عَلَیْہِ ثُمَّ یُصِرُّ مُسْتَکْبِرًا کَاَنْ لَّمْ یَسْمَعْھَا فَبَشِّرْہُ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ}[3] [الجاثیۃ: ۷، ۸] ’’ہر جھوٹے گنہگار پر افسوس ہے۔ (کہ) اللہ کی آیتیں اس کو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو ان کو سن لیتا ہے (مگر) پھر غرور سے ضد کرتا ہے کہ گویا ان کو سنا ہی نہیں، سو ایسے شخص کو دکھ دینے والے عذاب کی خوشخبری سنا دیں۔‘‘ امامِ سیرت ابنِ اسحاق نے لکھا ہے کہ ایک دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ولید بن مغیرہ کے ساتھ ایک مجلس میں بیٹھے تھے کہ یہ نضر بن حارث بھی وہیں آنکلا
[1] سیرت ابن ہشام (1؍2؍7) [2] دیکھیے: تفسیر أحسن البیان، سورۃ القلم، مذکورہ آیت۔ [3] ابن ہشام (1؍2؍7)