کتاب: حقوق مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم اور توہین رسالت کی شرعی سزا - صفحہ 251
قریش کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسلام کی طرف دعوت دے رہے تھے کہ حضرت عبداللہ بن امِ مکتوم رضی اللہ عنہ آگئے، اور وہ نابینا تھے، انھوں نے مختلف سوالات پوچھنا شروع کر دیے، اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ ناگواری و بے توجہگی برتی جس پر سورۂ عبس نازل ہوئی، جس کی آیات یہ ہیں : {عَبَسَ وَتَوَلّٰی۔ . اَنْ جَآئَہُ الْاَعْمٰی . وَمَا یُدْرِیْکَ لَعَلَّہٗ یَزَّکّٰی۔ٓ . اَوْ یَذَّکَّرُ فَتَنْفَعَہُ الذِّکْرٰی . اَمَّا مَنِ اسْتَغْنٰی . فَاَنْتَ لَہٗ تَصَدّٰی . وَمَا عَلَیْکَ اَلَّا یَزَّکّٰی۔ٓ . وَاَمَّا مَنْ جَآئَ کَ یَسْعٰی . وَھُوَ یَخْشٰی . فَاَنْتَ عَنْہُ تَلَھّٰی . کَلَّآ اِِنَّھَا تَذْکِرَۃٌ . فَمَنْ شَآئَ ذَکَرَہٗ} [عبس: ۱ تا ۱۲] ’’وہ (نبی) ترش رُو ہوئے اور منہ پھیر بیٹھے۔ کہ ان کے پاس ایک نابینا آیا۔ اور آپ کو کیا خبر، شاید وہ پاکیزگی حاصل کرتا۔ یا سوچتا تو سمجھانا اسے فائدہ دیتا۔ جو پروا نہیں کرتا۔ اس کی طرف تو آپ توجہ کرتے ہیں۔ حالانکہ اگر وہ نہ سنورے تو آپ پر کچھ (الزام) نہیں۔ اور جو آپ کے پاس دوڑتا ہوا آیا۔ اور وہ(اللہ سے) ڈرتا ہے۔ اس سے آپ بے رخی کرتے ہیں۔ دیکھیں ! یہ (قرآن) نصیحت ہے۔ پس جو چاہے اسے یاد رکھے۔‘‘ ۷ تا ۱۱۔ پچھلی سطورمیں ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو رنج پہنچانے والے اور عذابِ الٰہی کے مستحق لوگوں میں سے چھ گستاخانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ کیا ہے اور ایک حدیث بھی ذکر کی ہے۔ اسی حدیث میں یہ بھی مذکور ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قریشِ مکہ میں سے سات گستاخ مشرکین کے نام لے لے کر ان کے لیے لعنت کی خبر دی اور بد دعا فرمائی، جو یہ ہیں :