کتاب: حقوق مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم اور توہین رسالت کی شرعی سزا - صفحہ 246
بھاگی بھاگی آئیں اور انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر سے وہ اوجڑی ہٹائی۔[1]
یہ ابو جہل قرآنِ کریم کی آیات کا بھی استہزاء اور مذاق اڑایا کرتا تھا۔ چنانچہ جب سورۃ الصافات (آیت:۶۲) اور سورۃ الواقعہ (آیت: ۵۲) میں اللہ تعالیٰ نے کفار کو ڈرانے کے لیے فرمایاکہ تمھیں کھانے کے لیے سخت بدبودار، کڑوا اور نہایت کریہہ درخت زقوم [تھوہر] کا پھل دیا جائے گا۔ اس پر ابو جہل نے مذاق اڑاتے ہوئے کہا:
تمھیں معلوم ہے کہ یہ محمد [ صلی اللہ علیہ وسلم ]جس درخت زقوم کی بات کرتا ہے وہ کیا ہے ؟ لوگوں نے کہا: نہیں۔ اس نے کہا:
’’ عَجْوَۃُ یَثْرِبَ بِالزَّبَدِ۔‘‘
’’وہ یثرب کی کھجور عجوہ ہے جسے دودھ کی بالائی لگا کر پیش کیا جائے گا۔‘‘
اور کہنے لگا کہ ہم تو اسے وہاں خوب مزے لے لے کر کھائیں گے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے سورۃ الدخان کی آیات نازل فرمائیں جن میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
{ اِِنَّ شَجَرَۃَ الزَّقُّوْمِ . طَعَامُ الْاَثِیْمِ . کَالْمُھْلِ یَغْلِیْ فِیْ الْبُطُوْنِ . کَغَلْیِ الْحَمِیْمِ} [الدخان: ۴۳ تا ۴۶] [2]
’’ بلاشبہ تھوہر کا درخت۔ گناہگار کا کھانا ہے۔ جیسے پگھلا ہوا تانبا پیٹوں میں (اس طرح) کھولے گا۔ جس طرح گرم پانی کھولتا ہے۔‘‘
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اس کی باتوں کا رد فرمایا ہے۔
قریشِ مکہ کا یہ سردار غزوۂ بدر میں دو نو عمر شاہینوں کے ہاتھوں ذلت کی موت مارا گیا تھا۔
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (240) صحیح مسلم (1794) سنن النسائي (191) مسند أحمد (1؍393)
[2] ابن ہشام (1؍2؍10)