کتاب: حقوق مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم اور توہین رسالت کی شرعی سزا - صفحہ 242
اور واقعی ابو طالب نے عمر بھر دینِ اسلام کو قبول کیا نہ ایمان لایا مگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حمایت کا حق ادا کردیا۔ بخاری اور مسلم شریف میں ہے کہ جب آیت {وَاَنْذِرْ عَشِیْرَ تَکَ الْاَقْرَبِیْنَ} نازل ہوئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوہِ صفا پر چڑھ گئے اور مختلف خاندانوں کے نام لے لے کر آوازیں دیں، جب وہ جمع ہو گئے تو فرمایا: ’’اگر میں تمھیں یہ کہوں کہ اس پہاڑی کے پیچھے ایک لشکر ہے جوتم پر حملہ کر نے والاہے تو کیا مان جاؤگے؟‘‘ ان سب نے کہا: ’’مَا جَرَّبْنَا عَلَیْکَ کَذِباً۔‘‘ ’’ہم نے آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کوکبھی جھوٹ بولتے نہیں سنا۔‘‘ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((فَاِنِّيْ نَذِیْرٌ لَّکُمْ بَیْنَ یَدَيْ عَذَابٍ شَدِیْدٍ)) ’’میں تمھیں عذابِ شدید سے ڈرانے والا ہوں۔‘‘ یہ سنتے ہی ابو لہب اٹھا اور بھڑک کر کہا: ’’ تَبّاً لَکَ سَائِرَ الْیَوْمِ أَلِھٰذَا جَمَعْتَنَا؟‘‘ ’’تو ہلاک ہو جائے، کیا تو نے ہم سب کو صرف اسی لیے جمع کیا تھا؟‘‘ تو اس کے جواب میں تیسویں (۳۰) پارے کی پوری سورۂ لہب {تَبَّتْ یَدَآ اَبِیْ لَھَبٍ وَّ تَبَّ۔۔۔} نازل ہوئی۔[1] نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بد زبانی کرنے والے اس خائب و خاسر شخص ابو لہب کا کیا انجام ہوا؟ اس کی تفصیل تو سورۃ اللھب کی تفسیر میں دیکھی جاسکتی ہے،
[1] صحیح البخاري (8؍ 400، 408، 510) صحیح مسلم (1؍ 134)