کتاب: حقوق مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم اور توہین رسالت کی شرعی سزا - صفحہ 22
تمھاری خرابی (اور فتنہ انگیزی کرنے) میں کسی طرح کی کوتاہی نہیں کرتے اور چاہتے ہیں کہ (جس طرح ہو) تمھیں تکلیف پہنچے، اُن کی زبانوں سے تو دُشمنی ظاہر ہو ہی چکی ہے اور جو (کینے) اُن کے سینوں میں مخفی ہیں وہ کہیں زیادہ ہیں۔ اگر تم عقل رکھتے ہو تو ہم نے تمھیں اپنی آیتیں کھول کھول کر سنا دی ہیں۔‘‘
8۔ کافر مسلمانوں سے کبھی محبت اور دوستی نہیں کریں گے بلکہ وہ اپنے دلوں سے مسلمانوں کے خلاف شدید غیظ و غضب رکھتے ہیں۔ ارشادِ ربانی ہے:
{ ھٰٓاَنْتُمْ اُولَآئِ تُحِبُّوْنَھُمْ وَ لَا یُحِبُّوْنَکُمْ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِالْکِتٰبِ کُلِّہٖ وَ اِذَا لَقُوْکُمْ قَالُوْٓا اٰمَنَّا وَ اِذَا خَلَوْا عَضُّوْا عَلَیْکُمُ الْاَنَامِلَ مِنَ الْغَیْظِ قُلْ مُوْتُوْا بِغَیْظِکُمْ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌم بِذَاتِ الصُّدُوْرِ} [آل عمران: ۱۱۹]
’’دیکھو !تم ایسے (صاف دل) لوگ ہو کہ اُن لوگوں سے دوستی رکھتے ہو حالانکہ وہ تم سے دوستی نہیں رکھتے اور تم سب کتابوں پر ایمان رکھتے ہو (اور وہ تمھاری کتاب کو نہیں مانتے) اور جب تم سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے اور جب الگ ہوتے ہیں تو تم پر غصے کے سبب انگلیاں کاٹ کاٹ کھاتے ہیں۔ (اُن سے) کہہ دو (بدبختو!) غصے میں مر جاؤ، اللہ تعالیٰ تمھارے دلوں کی باتوں سے خوب واقف ہے۔‘‘
9۔ مسلمانوں کو کسی بھی معاملے میں فائدہ پہنچے تو یہ کفار کو برا لگتا ہے اور اگر وہ نقصان اٹھائیں تو کفار کو خوشی ہوتی ہے جیسا کہ سورۃ آل عمران میں یہی بات بتاتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے: