کتاب: حقوق مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم اور توہین رسالت کی شرعی سزا - صفحہ 210
کافروں کے ساتھ معاشی مقاطعہ محض ایک جذباتی فیصلہ نہیں بلکہ ہمارے عقیدہ ’’الولاء و البراء‘‘ کا عین تقاضا ہے، اور کفار کے خلاف جہاد فی سبیل اللہ ہی کی ایک شکل ہے۔ ہمیں امید ہے کہ عالمِ اسلام میں ہر سطح پر اور ہر طبقہ میں ایسے غیرت مند مسلمان تاجر موجود ہیں جو دین کی خاطر دنیاوی مفادات کو قربان کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں، ایسے حضرات سے رابطہ کرنے پر یقینا مفید نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ ۳۔ تیسری اور اہم ترین بات یہ ہے کہ فرد واحد کے معاشی مقاطعہ سے کسی قسم کا فرق نہ پڑنے کا تصوّر سراسر شیطانی وسوسہ ہے، ہمارے خیال میں مذکورہ دونوں صورتوں کی نسبت یہ تیسری صورت سب سے زیادہ مؤثر اور قابلِ عمل ہے جس کا واضح ثبوت عرب ممالک میں کیا گیا۔ سروے سے عرب ممالک میں علماء کرام اور مختلف اسلامی تنظیموں کی اپیل پر یہود و نصاریٰ (خصوصاً امریکہ، اسرائیل اور برطانیہ ) کے مالِ تجارت کا مقاطعہ کے بارے میں جو اعداد و شمار شائع ہوئے ہیں وہ بہت ہی حوصلہ افزا ہیں۔ مصر میں عوام الناس کے معاشی مقاطعہ کے نتیجہ میں مذکورہ ممالک کی بعض اشیاء کی فروخت میں ۸۰ فیصد کمی آئی ہے جس وجہ سے کمپنیوں کو اپنی بعض برانچیں تک بند کرنا پڑی ہیں۔ برطانوی کمپنی سیسبری کی مینجر نے اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ شائد مستقبل میں ہمیں مصر سے اپنا بیشتر کاروبار سمیٹنا پڑے۔ ابو ظہبی میں امریکی اشیاء کی فروخت میں ۵۰ فیصد کمی آئی ہے، سب سے زیادہ نقصان ’’فاسٹ فوڈ‘‘ مہیا کرنے والی کمپنی کو ہوا ہے جن کی فروخت صرف ۳۳فیصد رہ گئی ہے۔ امریکہ سے سعودی عرب امپورٹ ہونے والی اشیاء میں ۳۳ فیصد کمی آئی ہے جو اب ۴۳فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ مسقط میں کنٹاکی کمپنی کے مینجر