کتاب: حقوق مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم اور توہین رسالت کی شرعی سزا - صفحہ 208
آگے بڑھ کر معاملہ رفع دفع کردیا اور پوچھا: ’’ثمامہ تجھے کیا ہوا؟ کیا تم نے آباؤاجداد کے دین کو چھوڑ دیا ہے اور بے دین ہوگئے ہو؟‘‘ حضرت ثمامہ رضی اللہ عنہ نے سینہ تان کر جواب دیا: ’’بے دین نہیں ہوا بلکہ تمھارے دین سے بہتر دین اختیار کیا ہے۔ ربِّ کعبہ کی قسم! آئندہ سرزمینِ یمامہ سے اس وقت تک تمھارے لیے گندم کا ایک دانہ بھی نہیں آئے گا جب تک تم لوگ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اختیار نہیں کرتے۔‘‘ حضرت ثمامہ رضی اللہ عنہ کے اس معاشی مقاطعہ کے بعد قریش کا عرصۂ حیات تنگ ہونے لگا، اس معاشی مقاطعہ کا خاطر خواہ نتیجہ نکلا اور چند ہی مہینوں میں مشرکینِ مکہ نے گھٹنے ٹیک دیے اور رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا: ’’ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ نے ہماری اقتصادی امداد بند کردی ہے، ازراہِ کرم انھیں حکم دیں کہ وہ ہماری اقتصادی امداد بحال کریں اور اشیائے خورد نوش بھیجنی شروع کردیں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صلہ رحمی فرماتے ہوئے حضرت ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ کو قریشِ مکہ کی اقتصادی امداد بحال کرنے کا حکم دیا اور انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے امداد بحال کردی۔ غزوہ طائف ۸ھ کے موقع پر جب محاصرہ توقع سے زیادہ طویل ہوگیا تو خود رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو انگوروں کے درخت کاٹنے کا حکم دیا جو اہلِ طائف کی معیشت کا سب سے بڑا ذریعہ تھے، جب اہلِ طائف نے انگوروں کے درخت کٹتے دیکھے تو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ اور قرابت کا واسطہ دے کر