کتاب: حقوق مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم اور توہین رسالت کی شرعی سزا - صفحہ 206
’’اے اللہ! دو آدمیوں، ابو جہل وعمر میں سے جو تجھے زیادہ پسند ہو اس کے ساتھ اسلام کو عزت دے۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان دونوں میں سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ زیادہ پسند تھے۔‘‘ یعنی ان کا مسلمان ہونا زیادہ محبوب تھا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا قبول فرمائی اور حضرت عمر اسلام لائے۔ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت کے الفاظ یہ ہیں : ((اللّٰہُمَّ أَعِزَّ بِالْاِسْلَامِ، لِأَنَّ الْاِسْلَامَ یُعِزُّ وَلَا یُعَزُّ)) ’’اے اللہ (عمر رضی اللہ عنہ کو) اسلام کے ساتھ عزت بخش کیونکہ اسلام عزت دیتا ہے، کوئی شخص اسلام کے لیے باعثِ عزت نہیں ہوتا۔‘‘ اور ابو بکر تاریخی نے کہا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد ((اَللّٰہُمَّ أَیِّدِ الْاِسْلَامَ)) کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے فرمایا: ’’معاذ اللہ!‘‘ اس سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے الفاظ ہی کی تائید ہوتی ہے۔[1] حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام لے آنے سے چھپ چھپ کر نماز یں پڑ ھنے والے بیت اللہ میں نمازیں ادا کرنے لگے تو مشرکینِ مکہ نے اپنے تر کش کاآخری تیربھی پھینک دیا کہ نبوت کے ساتوں سال ماہِ محرم میں بنی ہاشم سے مکمل سوشل بائیکاٹ کر دیا۔ اور اس معاہدہ کی تحریر بابِ کعبہ پر لٹکادی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے قبیلے کے ساتھ خرید وفروخت، لین دین، اٹھنا بیٹھنا ترک کر دیا تو بنی ہاشم ناچار شعبِ ابی طالب میں محبوس ومحصور ہوگئے۔ مشرکین نے اشیائے خوردنی بند کردیں۔ یہ سِلسلہ تین سال تک جاری رہا۔ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اس تحریر کا لکھنے والا بغیض بن عامر تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بددعا کی وجہ سے اس کا (تحریر لکھنے والا ) ہاتھ شل ہوگیا تھا۔ [2] امام سہیلی رحمہ اللہ نے اس بائیکاٹ کے دوران پیش آمدہ مشکلات بھی ذکر کی ہیں کہ اشیائے خوردنی نہ ہونے کی وجہ سے پتے کھاتے اور پائخانے کی بجائے مینگنیاں کرتے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک رات چلتے ہوئے کوئی ترچیزمیرے پاؤں کو لگی تومیں نے بھوک کے مارے فوراً پکڑ کر نگل لی اور مجھے آج تک معلوم نہیں کہ وہ کیا چیزتھی؟ وہی فرماتے ہیں کہ ایک رات
[1] الروض الأنف (3/ 272) [2] زاد المعاد (2؍ 46)