کتاب: حقوق مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم اور توہین رسالت کی شرعی سزا - صفحہ 205
شِمَالِیْ عَلَیٰ أَنْ أَتْرُکَ ہَٰذَا الْاَمْرَ حَتَّیٰ یُظْھِرَہُ اللّٰہُ أَوْ أُھْلَکَ فِیْہِ مَا تَرَکْتُہٗ))[1]
’’چچا اگر یہ لوگ میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند بھی لاکرر کھ دیں اور چاہیں کہ میں تبلیغِ اسلام چھوڑ دوں تو بھی میں نہیں چھوڑ وں گا۔ یہاں تک کہ اللہ کادین غالب ہوجائے یامیری جان جاتی رہے۔‘‘
اسی دوران نبوت کے چھٹے سال حضرت حمزہ اور عمر فاروق رضی اللہ عنہما مسلمان ہو گئے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعاما نگی تھی:
((اللّٰہُمَّ أَعِزَّ الْاِسْلَامَ بِأَحَبِّ الرَّجُلَیْنِ: بِأَبِیْ جَہْلٍ أَوْ بِعُمَرَ، فَکَانَ أَحَبَّہُمَا اِلَیْہِ عُمَرُ)) [2]
[1] یہ حدیث ابن اسحاق کے طریق سے امام ابن جریر (۲/ ۶۷) نے بھی بیان کی ہے لیکن اس کی سند معضل ہے۔ نیز طبرانی کبیر اور اوسط میں بھی قدر ے اختصار کے ساتھ یہ روایت موجود ہے، اور علاّمہ ہیثمی نے مجمع الزوائد (۶/ ۱۵) میں لکھا ہے: رواہ أبو یعلی باختصارٍ یسیرٍ من أولہ، و رجال أبي یعلی رجال الصحیح۔ البتہ شیخ البانی نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے۔ دیکھیں : فقہ السیرۃ [ص: 115,114]
[2] سنن الترمذي، رقم الحدیث [3681] مسند أحمد [95/2]