کتاب: حقوق مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم اور توہین رسالت کی شرعی سزا - صفحہ 177
سرائی کررہی تھیں، اپنے اشعار ہی میں انھوں نے یہ بھی کہہ دیا: ’’ وَ فِیْنَا نَبِيٌّ یَعْلَمُ مَا فِيْ غَدٍ۔‘‘ ’’ہمارے مابین نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہیں جو کہ کل کو پیش آنے والے امور کو بھی جانتے ہیں۔‘‘ یہ سن کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں منع کرتے ہوئے فرمایا: ((مَا ہَذَا؟ فَلَا تَقُوْلُوْہُ، مَا یَعْلَمُ مَا فِيْ غَدٍ اِلَّا اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ)) [1] ’’یہ کیا ہے؟یہ نہ کہو، کل کو جو کچھ ہونے والا ہے اسے اللہ عزوجل کے سوا کوئی نہیں جانتا۔‘‘ جبکہ صحیح بخاری کے الفاظ یہ ہیں : ((دَعِيْ ہَذَا، وَ قُوْلِيْ بِالَّذِيْ کُنْتِ تَقُوْلِیْنَ)) [2] ’’یہ بات چھوڑ دو اور صرف وہی کہو جو تم پہلے کہہ رہی تھی۔‘‘ ۹۔ دفاعِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم : نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے تقاضوں ہی میں سے ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس کے خلاف اٹھنے والے ہر قلم کے مقابلے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھرپور دفاع کیا جائے، یہ دفاع کرنا سننِ ربانیہ و قوانینِ الٰہیہ میں سے ہے اور سب سے پہلے یہ کام خود اللہ تعالیٰ نے کیا ہے۔ چنانچہ سورۃ البقرۃ میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: { فَھَزَمُوْھُمْ بِاِذْنِ اللّٰہِ وَ قَتَلَ دَاوٗدُ جَالُوْتَ وَ اٰتٰہُ اللّٰہُ الْمُلْکَ وَ الْحِکْمَۃَ وَ عَلَّمَہٗ مِمَّا یَشَآئُ وَ لَوْ لَا دَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ
[1] صحیح سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث (1539) مسند أحمد (6/259، 260) [2] صحیح البخاري مع الفتح (9؍202)