کتاب: حقوق مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم اور توہین رسالت کی شرعی سزا - صفحہ 176
سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مخاطب ہوکر فرمایا: ((مَا شَآئَ اللّٰہُ وَ شِئْتَ)) ’’ جو اللہ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاہا۔‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ٹوک دیا اور فرمایا: ((أَجَعَلْتَنِيْ وَ اللّٰہِ عَدْلاً؟بَلْ مَا شَآئَ اللّٰہُ وَحْدَہٗ))[1] ’’کیا تونے مجھے اللہ تعالیٰ کا ہمسر بنادیا ہے؟ بلکہ صرف جو اللہ اکیلے نے چاہا وہی ہوگا۔‘‘ 2۔ اسی طرح ہمارے کچھ لوگوں بلکہ مولویوں کے ایک ٹولے کو ضد ہے کہ وہ قرآن و سنت کی تعلیمات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عالم الغیب باور کروائیں، یہی کچھ نعت گو اور نعت خوان بھی کرتے رہتے ہیں حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کرنے سے منع فرما رکھا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اظہارِ حب و شوق کے لیے نظم و نثر ہر دو طرح کی نعت گوئی و مدح سرائی مروّج تھی، اور بسا اوقات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی بعض عبارات و اشعار کی اصلاح بھی فرما دیا کرتے تھے بلکہ افراط و غلو اور مبالغہ آمیزی سے سختی کے ساتھ منع فرمایا کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ شعرا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی نعتیں افراط و غلو سے سراسر پاک تھیں۔ ان باتوں کی ایک دلیل وہ واقعہ ہے جو ایک حدیث میں آیا ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری، سنن ابن ماجہ اور مسند احمد میں حضرت رُبَیَّع بنت معوّذ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میری شادی کے روز کی صبح کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اور میرے پاس دو بچیاں رزمیہ اشعار پڑھ رہی تھیں جن میں غزوۂ بدر میں شریک ہونے اور شہادت پانے والے میرے آباء و اجداد کی مدح
[1] مسند أحمد (1؍214) السلسلۃ الصحیحۃ (1؍56۔57)