کتاب: حقوق مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم اور توہین رسالت کی شرعی سزا - صفحہ 17
’’اُس نے کہا کہ اِس [آدم]کی وجہ سے تو نے مجھے گمراہ کیا ہے، میں ضرور ان کے [گمراہ کرنے کے] لیے آپ کی سیدھی راہ پر بیٹھوں گا، پھر ان پر ان کے آگے سے اور ان کے پیچھے سے حملہ کروں گا اور ان کی دائیں جانب سے اور بائیں جانب سے بھی حملہ آور ہوں گا۔‘‘
اس کے عداوت و بغاوت پر مبنی اعلان کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا:
{ اخْرُجْ مِنْھَا مَذْئُ وْمًا مَّدْحُوْرًا لَمَنْ تَبِعَکَ مِنْھُمْ لَاَمْلَئَنَّ جَھَنَّمَ مِنْکُمْ اَجْمَعِیْنَ} [الأعراف: ۱۸]
’’یہاں سے ذلیل و خوار ہوکر نکل جاؤ،جو شخص ان [بنی آدم] میں سے تیرا حکم مانے گا، میں ضرور تم سب سے جہنم کو بھر دوں گا۔‘‘
جب حق حضرت نوح علیہ السلام کی شکل میں رونما ہوا تو باطل کنعان کے روپ میں سامنے آکھڑا ہوا، اور پھر حق حضرت موسیٰ علیہ السلام کے رنگ میں ظاہر ہوا تو باطل فرعون کی صورت اختیار کر آیا، حق حضرت ابراہیمِ خلیل علیہ السلام کی صورت میں جلوہ گر ہوا تو باطل نمرود بن کرآگیا۔ غرض تاریخِ انسانی گواہ ہے کہ حق و باطل کی یہ آویزش عہدِ قدیم ہی سے چلی آرہی ہے۔ بالآخر جب اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو اسلام کی طرف بلایا، دعوتِ توحید دی اور حق کو قبول کرنے کی تبلیغ شروع کی تو باطل کاسب سے پہلا سرغنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا چچا ابو لہب ثابت ہوا۔ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو برا بھلا کہا اور بڑی اذیت دی لیکن اس کا جو انجام ہوا وہ قدرے تفصیل کے ساتھ ہم آگے چل کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دینے، بُرا بھلا کہنے اور توہینِ رسالت کا ارتکاب کرنے والوں کے انجام و سزا کے ضمن میں ذکر کرینگے۔ إن شاء اﷲ۔