کتاب: حقوق مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم اور توہین رسالت کی شرعی سزا - صفحہ 169
مرتبہ کسی صحابی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ان الفاظ سے مخاطب کیا:
((یَا مُحَمَّدُ! یَا سَیِّدَنَا وَ ابْنَ سَیِّدِنَا وَ خَیْرَنَا وَ ابْنَ خَیْرِنَا))
’’اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! اے ہمارے سردار اور ہمارے سردار کے صاحبزادے! اے ہم سب میں سے افضل اور سب سے افضل کے صاحبزادے!‘‘
یہ سن کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((یَا أَیُّہَا النَّاسُ ! عَلَیْکُمْ بِتَقْوَاکُمْ، لَا یَسْتَہْوِیَنَّکُمُ الشَّیْطَانُ، أَنَا مُحَمَّدُ عَبْدُ اللّٰہِ وَ رَسُوْلُہٗ، وَ اللّٰہِ مَا أُحِبُّ أَنْ تَرْفَعُوْنِيْ فَوْقَ مَنْزِلَتِيْ الَّتِيْ أَنْزَلَنِيْ اللّٰہُ )) [1]
’’اے لوگو! تقویٰ اختیار کرو، شیطان کہیں تمھیں میری محبت میں بھٹکا نہ دے، میں محمد بن عبد اللہ ہوں، اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔ اللہ کی قسم! مجھے یہ بات قطعاً پسند نہیں کہ تم مجھے میرے اُس مقام سے اونچا اٹھا دو جس مقام پر اللہ نے مجھے رکھا ہے۔‘‘
مسلمان سیرت نگار و سیرت گو، نعت گو اور نعت خوان نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا بیٹا تو نہیں بناتے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصل مقام سے بلند کردینے کے لیے کئی دوسرے امور کا ارتکاب کرتے ہیں، مثلاً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مقامِ الوہیّت پر فائز کردینا جیسا کہ ایک نعت گو کہہ گئے ہیں ؎
وہی جو مستویٔ عرش تھا خدا ہو کر
اتر پڑا مدینے میں مصطفی ہو کر
کبھی مولانا روم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں غلو کرتے ہوئے کہا:
[1] مسند أحمد (3؍152) ابن حبان، رقم الحدیث (2128 الموارد) عمل الیوم و اللیلۃ للنسائي، رقم الحدیث (248)