کتاب: حقوق مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم اور توہین رسالت کی شرعی سزا - صفحہ 149
3 تا 5 ۔ اس سلسلہ میں ہمارے سلف صالحینِ امت نے ہمارے لیے روشن نمونے اور قابلِ اتباع مثالیں قائم فرمائی ہیں۔ چنانچہ صحیح بخاري و مسلم، ابوداود، نسائی، ابن ماجہ اور بیہقی میں ہے کہ حضرت ابو موسی الاشعری رضی اللہ عنہ کو شدید درد اٹھا جس سے ان پر غشی طاری ہوگئی، اس وقت ان کاسر ان کی اہلِ خانہ خواتین میں سے کسی کی گود میں تھا تو خواتین خانہ میں سے کوئی خاتون اس حالت کو دیکھ کر زور زورسے چلّانے لگی، وہ اس وقت شدتِ الم اور بیہوشی کی وجہ سے اسے کچھ نہ کہہ سکے لیکن جب اس تکلیف سے افاقہ ہوا اور ہوش آیا تو فرمایا: ((أَنَا بَرِیٌٔ مِمَّنْ بَرِیَٔ مِنْہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ، فَاِنَّ الرَّسُوْلَ ﷺ بَرِیٌٔ مِنَ الصَّالِقَۃِ وَ الْحَالِقَہِ وَ الشَّاقَّۃِ)) [1] ’’میں ہراس چیز سے بری و بیزار ہونے کا اعلان کرتا ہوں جس سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بَری و بیزار تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کسی کی موت پر چلانے و والی، سر کے بال بکھیرنے، نوچنے، مونڈنے والی اور گریبان چاک کرنے [کپڑے پھاڑنے والی] عورتوں سے بیزاری و براء ت فرماچکے ہیں۔‘‘ ۶۔ بعض لوگ عموماً اور خواتین خصوصاً غم کے موقعوں پر صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیتی ہیں اور جائز رونے اور آنسو بہانے کے ساتھ ساتھ مرنے والے کی صفات اور اس کی موت کی وجہ سے پیش آمدہ مصائب کی گنتی شروع ہوجاتی ہے، اور ایک راگ کے ساتھ بَین کیے جاتے ہیں۔ اس
[1] صحیح البخاري (3 ؍ 131 تعلیقاً) صحیح مسلم (104) صحیح سنن أبي داود (2684) صحیح سنن النسائي (1757) سنن ابن ماجہ (1585)