کتاب: حقوق مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم اور توہین رسالت کی شرعی سزا - صفحہ 132
امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے: ’’علما نے کہا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبرِ مبارک کے پاس آوازوں کو بلند کرنا بھی اتنا ہی مکروہ و ناپسندیدہ فعل ہے جتنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم زندگی میں اور موت کے بعد حیاتِ برزخ میں ہر حال میں قابلِ صد ہزار تعظیم و احترام اور جلیل القدر ہیں۔‘‘[1] نیز قاضی ابو بکر ابن العربی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حترام و اکرام وفات کے بعد بھی اتنا ہی ہے جتنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں تھا، اور آپ کا کلامِ ماثور (احادیث) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی اسی طرح رفیع الشان ہے جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے نکلتے وقت تھا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث پڑھی جائیں تو وہاں موجود ہر شخص پر واجب ہے کہ وہ اپنی آواز بلند نہ کرے اور نہ ہی اس سے اعراض و روگردانی کرے جس طرح کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھنے والے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے سننے والے کے لیے لازم تھا۔‘‘[2] یہاں یہ بات بھی پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ یہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ادب و احترام اور تعظیم و توقیر کی خاطر عام گفتگو میں آوازوں کو پست رکھنے کا حکم ہے یہاں اونچی آواز سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا استخفاف و توہین مراد نہیں کیونکہ وہ تو سراسر کفر ہے۔[3]
[1] تفسیر ابن کثیر (4؍183) [2] تفسیر القرطبي (8؍16؍307) [3] قرطبي (8؍16؍307)