کتاب: حقوق مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم اور توہین رسالت کی شرعی سزا - صفحہ 130
یافلان، یا فلان کہہ کر بلاتے ہو اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کا نام لے کر یا محمد یامحمد کہہ کر نہ بلاؤ بلکہ یا نبی اللہ، یا رسول اللہ و غیرہ کہا کرو۔ اس ادب کا تعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ سے ہے جبکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ضرورت پیش آیا کرتی تھی کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مخاطب ہوں۔[1] علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی تعریف کی ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و جلالت کا خیال رکھتے ہوئے اپنی آوازیں پست رکھا کرتے تھے۔ چنانچہ سورۃ الحجرات میں ارشادِ الٰہی ہے: { اِِنَّ الَّذِیْنَ یَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَھُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُوْلٰٓئِکَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰہُ قُلُوْبَھُمْ لِلتَّقْوٰی لَھُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّاَجْرٌ عَظِیْمٌ} [الحجرات: ۳] ’’جو لوگ پیغمبرِ الٰہی کے سامنے دبی آواز سے بولتے ہیں اللہ نے ان کے دل تقویٰ کے لیے آزما لیے ہیں، ان کے لیے بخشش اور اجرِ عظیم ہے۔‘‘ مسند احمد کی ایک حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ عامیانہ انداز کے ساتھ حجرے سے باہر کھڑے کھڑے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یامحمد یامحمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آوازیں لگانے والے بنو تمیم کے اعرابی و گنوار قسم کے لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے ’’بے عقل۔‘‘ قرار دیا ہے۔[2] چنانچہ سورۃ الحجرات کی آیت اُنھیں کے بارے میں نازل ہوئی جس میں ارشادِ الٰہی ہے: { اِِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَکَ مِنْ وَّرَآئِ الْحُجُرَاتِ اَکْثَرُھُمْ لاَ یَعْقِلُوْنَ} [الحجرات: ۴]
[1] تفسیر القرطبی (8؍16؍ 307۔ 309) تفسیر أحسن البیان۔ [2] مسند أحمد (3؍488،6؍394)