کتاب: حقیقت شہادتین - صفحہ 9
شکل ہے۔اور آج لوگ دنیا کی دوڑ میں انتہائی منہمک ہیں حتی کہ وہ لوگ جن کے ہاں کسی حد تک دین کے احکامات کی پابندی پائی جاتی ہے وہ بھی ایسے لگتا ہے جیسے دنیا پر فدا ہو رہے ہیں۔اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک اور ارشاد گرامی ہے کہ:
(وَمَا الْفَقْرَ أَخْشٰی عَلَیْکُمْ،وَإِنَّمَا أَخْشٰی أَنْ تُفَتَحَ عَلَیْکُمُ الدُّنْیَا فَتَنَافَسُوْہَا کَمَا تَنَافَسَہَا مَنْ قَبْلَکُمْ،فَتُہْلِکَکُمْ کَمَا أَہْلَکَتْہُمْ)
‘’مجھے تم پر فقر کا اندیشہ نہیں ہے بلکہ مجھے تم پر اس بات کا اندیشہ ہے کہ دنیا کے خزانے تمہارے لئے کھول دئے جائیں گے۔پھر تم ان کے حصول میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کروگے جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں نے بھی دنیا کے حصول میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کی تو دنیا تمہیں ہلاک کر ڈالے گی جیسا کہ اس نے تم سے پہلے لوگوں کو ہلاک کر ڈالا۔‘‘[بخاری:۴۰۱۵،مسلم:۲۹۶۱]
یہ ہے وہ چیزجس کا آج زیادہ خوف ہے،یعنی شرکِ محبت جو کہ دل پر غالب آجاتا ہے۔[برنامج نور علی الدرب]
لہذا یہ بات واضح ہو گئی کہ تزکیۂ نفس اور دل کی پاکیزگی صرف علمِ نافع اور عملِ صالح کے ذریعے ہی ممکن ہے۔اس لئے ہمیشہ اپنے دل کا جائزہ لیتے رہنا چاہئے اور کلمۂ طیبہ کے ذریعے اسے پاک غذا پہنچانے کا اہتمام کرتے رہنا چاہئے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿أَلَمْ تَرَ کَیْفَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلاً کَلِمَۃً طَیِّبَۃً کَشَجَرَۃٍ طَیِّبَۃٍ أَصْلُہَا ثَابِتٌ وَّفَرْعُہَا فِیْ السَّمَائِ﴾[ابراہیم:۳۴]
ترجمہ:’’کیا آپ نے دیکھا نہیں کہ اللہ نے کلمہ طیبہ کی کیسی مثال دی ہے،وہ اس عمدہ درخت کی مانند ہے جس کی جڑ زمین میں مضبوط ہو اور جس کی شاخ آسمان میں ہو۔’‘
اس آیتِ کریمہ میں کلمۂ طیبہ سے مراد(لاَ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ)ہے۔اور ہر انسان