کتاب: حقیقت شہادتین - صفحہ 81
ہے یعنی ان مومنوں کو جن کے دلوں میں ایمان راسخ ہو چکا ہوتا ہے اور اس کا اثر ان کے اعضاء سے انجام دئیے جانے والے اعمال صالحہ کے ذریعے ظاہر ہوتا رہتا ہے تو اللہ تعالیٰ انھیں دنیاکی زندگی میں شبہات کے وقت ثابت قدم رکھتا ہے اور انھیں یقین ِ کامل نصیب کرتا ہے۔اور جب شہوات سامنے آتی ہیں تو انھیں اپنی محبت کو نفس کی محبت پر ترجیح دینے کی توفیق دیتا ہے۔اور موت کے وقت انھیں ایمان پر خاتمہ نصیب فرماتا ہے،دینِ اسلام پر ثابت قدم رکھتا ہے اورقبر میں کئے جانے والے سوالات(مَنْ رَبُّکَ ؟ مَا دِیْنُکَ ؟ مَنْ نَبِیُّکَ ؟)کے درست جوابات(اَللّٰہُ رَبِّیْ،اَلْإِسْلاَمُ دِیْنِیْ،مُحَمَّدٌ صلی اللّٰه علیہ وسلم نَبِیِّیْ)دینے کی توفیق دیتا ہے۔’‘ ٭ یہی کلمہ وہ عہد ہے کہ جس کے ذریعے شفاعت کی سعادت نصیب ہو گی۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿لاَ یَمْلِکُوْنَ الشَّفَاعَۃَ إِلاَّ مَنِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمٰنِ عَہْدًا﴾[مریم:۸۷] ‘’ اس دن کوئی بھی کسی کی سفارش نہ کر سکے گا مگر جس نے رحمن سے عہد لیا ہو۔’‘ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا: ‘’اس عہد سے مقصود لاَ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ کی گواہی دینا ہے جس کے ذریعے انسان اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ ہر قسم کی طاقت وقدرت کا مالک اللہ تعالیٰ ہے۔اور یہی کلمہ ہر تقوی کی جڑ ہے۔‘‘ الشیخ ابن السعدی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں: ‘’شفاعت کسی کی ملکیت نہیں اور نہ ہی کوئی شخص اس کا اختیار رکھتا ہے۔شفاعت کا مالک تو اللہ تعالیٰ ہی ہے۔فرمان الٰہی ہے:﴿قُلْ لِلّٰہِ الشَّفَاعَۃُ جَمِیْعًا﴾’’کہہ دیجئے کہ سفارش پوری اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔‘‘اور اللہ تعالیٰ نے آگاہ کیا ہے کہ