کتاب: حقیقت شہادتین - صفحہ 79
الشیخ ابن السعدی رحمہ اللہ اپنی تفسیر میں کہتے ہیں: ‘’دعوۃ الحق سے مقصود اکیلئے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا اور محض اسے پکارنا اور اس سے سوال کرنا ہے۔یعنی وہ اکیلا ہے جسے پکارا جا سکتا ہے اور صرف وہی ذات ہے جس کا خوف دل میں لایا جا سکتا ہے،جس سے تمام امیدیں وابستہ کی جا سکتی ہیں اور اسی کی محبت کو دل میں بسایا جا سکتا ہے۔رغبت بھی اسی کی طرف کی جا سکتی ہے اور ڈر بھی صرف اسی کا ہو سکتا ہے۔اس کے علاوہ کسی اور کی الوہیت باطل ہے۔’‘ ٭ یہی کلمہ باقی رہنے والا ہے جسے حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی اولاد میں چھوڑ گئے تاکہ وہ اسی کی طرف رجوع کریں۔ فرمان الٰہی ہے:﴿وَإِذْ قَالَ إِبْرَاہِیْمُ لِأبِیْہِ وَقَوْمِہٖ إِنَّنِیْ بَرَائٌ مِّمَّا تَعْبُدُوْنَ ٭ إِلاَّ الَّذِیْ فَطَرَنِیْ فَإِنَّہُ سَیَہْدِیْنِ ٭ وَجَعَلَہَا کَلِمَۃً بَاقِیَۃً فِیْ عَقِبِہٖ لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَ﴾[الزخرف:۲۶۔۲۸] ترجمہ:’’اور جب ابراہیم(علیہ السلام)نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا کہ جن کی تم پوجا کرتے ہو میں ان سے قطعا بیزار ہوں اور میں تو صرف اس کی عبادت کرتا ہوں جس نے مجھے پیدا کیا اور وہی مجھے راہ دکھائے گا۔اور ابراہیم(علیہ السلام)یہی بات اپنی اولاد میں چھوڑ گئے تاکہ وہ اس کی طرف رجوع کریں۔’‘ الشیخ ابن السعدی رحمہ اللہ اپنی تفسیر میں کہتے ہیں: ‘’حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اولاد کو اور ان کی اولاد نے آگے اپنی اولاد کو اسی کلمہ کی وصیت کی۔اور یہ کلمہ ان کی اولاد میں نسل در نسل باقی رہا یہاں تک کہ وہ مال ودولت میں منہمک ہو گئے۔‘‘ ٭ یہ کلمہ اتنا عظیم ہے کہ اس کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں،