کتاب: حقیقت شہادتین - صفحہ 78
‘’جب کافروں نے اپنے دلوں میں جاہلیت کے تعصب کو جگایا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اور مومنوں پر اپنا سکون اتارا اور انھیں تقوی والے کلمہ پر قائم رکھا۔اور یہ لوگ اس کے سب سے زیادہ حقدار اور سزاوار تھے۔اور اللہ ہر چیز کی پوری خبر رکھتا ہے۔’‘ ابو اسحاق السبیعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ عمرو بن میمون رحمہ اللہ نے کہا:(لاَ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ)سے بہتر کوئی بات نہیں،تو سعد بن عیاض رحمہ اللہ نے کہا:اے ابو عبد اللہ ! کیا آپ کو معلوم ہے کہ یہ کلمہ کیا ہے ؟ یہی تقوی والا کلمہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضی اللہ عنہم کیلئے لازم قرار دیا۔چنانچہ انھوں نے اس پر قائم رہ کر یہ ثابت کردیا کہ وہ واقعتا اس کے اہل تھے۔ اورالشیخ ابن السعدی رحمہ اللہ اپنی تفسیر میں کہتے ہیں: ‘’کلمہ(لاَ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ)اور اس کے حقوق پر قائم رہنے کو اللہ تعالیٰ نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم پر لازم کردیا۔لہذا وہ اس پر قائم رہے اور وہ اس کے سزاوار بھی تھے کیونکہ اللہ تعالیٰ کو ان کی اور ان کے دلوں کی خیر وبھلائی معلوم تھی۔’‘ ٭ کلمہ طیبہ ہی دعوتِ حق ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿لَہُ دَعْوَۃُ الْحَقِّ وَالَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ لاَ یَسْتَجِیْبُوْنَ لَہُمْ بِشَیْئٍ إِلاَّ کَبَاسِطِ کَفَّیْہِ إِلَی الْمَائِ لِیَبْلُغَ فَاہُ وَمَا ہُوَ بِبَالِغِہٖ وَمَا دُعَائُ الْکَافِرِیْنَ إِلاَّ فِیْ ضَلاَلٍ﴾[الرعد:۱۴] ترجمہ:’’صرف اسی کو پکارنا حق ہے۔اور جو لوگ اس کے سوا دوسروں کو پکارتے ہیں وہ ان کی کوئی حاجت پوری نہیں کرتے ہیں۔ان کی حالت اس آدمی کی سی ہے جو اپنے دونوں ہاتھ پانی کی طرف پھیلائے تاکہ اس کے منہ تک پہنچ جائے حالانکہ وہ کبھی بھی نہیں پہنچ سکتا۔ا ور کافروں کا اپنے معبودوں کو پکارنا رائیگاں ہی جاتا ہے۔’‘