کتاب: حقیقت شہادتین - صفحہ 55
ان کے نزدیک اسلام عورت پر ظلم کرتا ہے اور اس کے حقوق اس کو نہیں دیتا۔اور شرعی حدود بھی ان کے نزدیک ظلم،بھیانک جرم اور عصر جدید کے تقاضوں کے خلاف ہیں۔اور اسلام میں جو حکم مرتد کا ہے وہ ان کے نزدیک آزادیٔ فکر پر لٹکتی ہوئی ایک تلوار ہے۔اور شریعت کے احکام پر عمل پیرا ہونا ان کے نزدیک رجعیت،تعصب اور اندھیروں کی طرف واپس لوٹنا ہے،بلکہ انھوں نے اسے بھی دہشتگردی تصور کر لیا ہے۔جبکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿فَلاَ وَرَبِّکَ لاَ یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَہُمْ ثُمَّ لاَ یَجِدُوْا فِیْ أَنْفُسِہِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا﴾[النساء:۶۵] ترجمہ:’’(اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !)آپ کے رب کی قسم ! یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ اپنے تنازعات میں آپ کو حَکَم(فیصلہ کرنے والا)تسلیم نہ کر لیں،پھر آپ جو فیصلہ کریں اس کے متعلق یہ اپنے دلوں میں گھٹن بھی محسوس نہ کریں اور اس فیصلہ پر پوری طرح سر تسلیم خم کردیں۔’‘ اللہ اکبر ! توحید کو اختیار کرنا ذلیل لوگوں پر انتہائی مشکل ہے اور وہ زبانِ حال سے گویا یوں کہہ رہے ہیں: ﴿اَجَعَلَ الْآلِھَۃَ إِلٰھًا وَّاحِدًا إِنَّ ھٰذَا لَشَیْئٌ عُجَابٌ﴾[صٓ:۵] ’’کیا اس نے اتنے معبودوں کی جگہ ایک ہی معبود بنادیا،یہ تو بڑی عجیب بات ہے‘‘ توحید ان لوگوں پر مشکل ہے جو فساد کو خوشگوار سمجھ بیٹھے ہیں اور جہالت کی دلدل میں پھنس چکے ہیں۔فرمان الٰہی ہے: ﴿وَاِذَا ذُکِرَ اللّٰهُ وَحْدَہٗ اشْمَأَزَّتْ قُلُوْبُ الَّذِیْنَ لَا یُوْمِنُوْنَ بِالْآخِرَۃِ وَاِذَا ذُکِرَ الَّذِیْنَ مِنْ دُوْنِہٖ اِذَا ہُمْ یَسْتَبْشِرُوْنَ﴾[الزمر:۴۵]