کتاب: حقیقت شہادتین - صفحہ 53
‘’اس آیت میں شرک کے معاملے پر سختی کی گئی ہے اور اس کے حوالے سے سخت موقف اپنایا گیا ہے۔’‘ اللہ کے بندو ! توحید میں خلل کا خوف کیوں نہ ہو اور عبادتِ الٰہی میں نقص کا اندیشہ کیوں نہ ہو اور شرک اور اس کی تمام اقسام اور اس کے اسباب سے کیوں نہ ڈرایا جائے جبکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَمَا یُؤْمِنُ أَکْثَرُہُمْ بِاللّٰہِ إِلاَّوَہُمْ مُّشْرِکُوْنَ﴾[یوسف:۱۰۶]’’اور ان میں سے اکثر لوگ اللہ پر ایمان کا دعوی تو کرتے ہیں لیکن وہ مشرک ہوتے ہیں۔’‘ بعض اہلِ علم کا کہنا ہے کہ اس آیت میں اس بات کی دلیل ہے کہ بعض لوگوں کے دلوں میں لا شعوری طور پر شرکِ خفی واقع ہو سکتا ہے،کیونکہ اس طرح کا انسان اگرچہ اللہ کی توحید کا عقیدہ رکھتا ہوتاہم وہ اپنی عبادت اللہ تعالیٰ کیلئے خالص نہیں کرتا اور وہ غیر اللہ کیلئے،یا اپنے کسی دنیاوی مقصد کے حصول کیلئے،یا کسی منصب تک پہنچنے کیلئے،یا لوگوں کے ہاں اونچا مقام حاصل کرنے کیلئے عبادت کرتا ہے۔یوں اس کی عبادت میں کچھ حصہ اللہ تعالیٰ کیلئے،کچھ حصہ اس کے نفس کیلئے،کچھ شیطان کیلئے اور کچھ مخلوق کیلئے ہوتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ تمام شرکاء سے بے نیاز ہے۔ میرے بھائیو ! یہ معاملہ انتہائی خطرناک ہے۔اور محبت،عبودیت اور خشوع وخضوع میں شرکِ خفی پایا جاتا ہے،کیونکہ جو شخص اپنی محبت،اپنے خشوع وخضوع اور اپنی اطاعت وفرمانبرداری میں غیر اللہ کو شریک بناتا ہے اور جو غیر اللہ کیلئے سرِ تسلیمِ خم کرتا ہے اس کے بارے میں یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ اس نے حقیقی توحید کو اختیار کر لیا ! فرمان الٰہی ہے:﴿وَإِنْ أَطَعْتُمُوْہُمْ إِنَّکُمْ لَمُشْرِکُوْنَ﴾[الأنعام:۱۲۱]