کتاب: حقیقت شہادتین - صفحہ 52
دیا۔اور انھوں نے ان کیلئے وہ چیز حرام کردی جسے میں نے حلال کیا تھا۔اور انھیں حکم دیا کہ وہ میرے ساتھ اس چیز کو شریک بنائیں جس کی میں نے کوئی دلیل نہیں اتاری۔’‘ یہ خوف کیوں نہ ہو جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کے سب سے افضل لوگوں یعنی صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا: (إِنَّ أَخْوَفَ مَا أَخَافُ عَلَیْکُمْ الشِّرْکُ الْأصْغَرُ) یعنی’’مجھے تم پر سب سے زیادہ خوف شرکِ اصغر کا ہے’‘ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا کہ شرک اصغر کیا ہوتا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(اَلرِّیَائُ،یَقُوْلُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ لِأصْحَابِ ذٰلِکَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ إِذَا جَازَی النَّاسَ:اِذْہَبُوْا إِلَی الَّذِیْنَ کُنْتُمْ تُرَاؤُوْنَ فِیْ الدُّنْیَا،فَانْظُرُوْا ہَلْ تَجِدُوْنَ عِنْدَہُمْ جَزَائً ؟)[الصحیحۃ للألبانی:۹۵۱] ‘’شرکِ اصغر سے مراد ریا کاری ہے۔اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن جب لوگوں کو ان کے اعمال کا بدلہ دے گا تو ریا کاری کرنے والوں سے کہے گا:تم ان لوگوں کے پاس چلے جاؤ جن کے لئے تم ریا کرتے تھے،پھر دیکھو کہ کیا وہ تمہیں کوئی بدلہ دیتے ہیں ؟’‘ بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشین گوئی فرمائی کہ (أَنَّ فِئَامًا مِّنَ الْأمَّۃِ تَعْبُدُ الْأوْثَانَ،وَقَبَائِلَ تَلْحَقُ بِالْمُشْرِکِیْنَ) یعنی’’اس امت کے کئی گروہ بتوں کی پوجا کریں گے اور کئی قبیلے مشرکوں سے جاملیں گے۔’‘[اخرجہ احمد۔وہو صحیح] اور حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان﴿وَلَوْ أَشْرَکُوْا لَحَبِطَ عَنْہُمْ مَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ﴾[الأنعام:۸۸]’’اور اگر(بالفرض)یہ حضرات(انبیاء علیہم السلام)بھی شرک کرتے تو ان کے تمام اعمال اکارت ہوجاتے’‘کے متعلق کہتے ہیں: