کتاب: حقیقت شہادتین - صفحہ 50
ہے۔اسے اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے،دل کی خوشی کے ساتھ ادا کرنا ضروری ہے۔اور اس میں اللہ رب العز ت کی عبادت کا اعتراف اور دینارو درہم کی عبادت کا انکار ہے۔ فرمان الٰہی ہے:﴿وَوَیْلٌ لِّلْمُشْرِکِیْنَ ٭ الَّذِیْنَ لاَ یُؤْتُوْنَ الزَّکَاۃَ وَہُمْ بِالْآخِرَۃِ ہُمْ کَافِرُوْنَ﴾[فصلت:۶۔۷]
ترجمہ:’’اور بربادی ہے ان مشرکوں کیلئے جو زکاۃ ادا نہیں کرتے اور وہ آخرت کے بھی منکر ہیں۔’‘
چوتھا رکن روزے ہیں جن میں روزہ دار انسان محض اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے اپنا کھانا پینا اور اپنی شہوت تک کو چھوڑ دیتا ہے۔
پانچواں رکن حج ہے جس میں پوری امت کا شعار ہی تلبیۂ توحید ہوتا ہے اور تمام حجاج بیک آواز ہو کرہر گھاٹی اور ہر وادی میں توحید کا اعلان اور شرک کی نفی کرتے ہیں۔
امام ابو اسحاق الشاطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
‘’ہمیں یقین ہے کہ شہادتین کا اقرار اور نماز اور اس کے علاوہ دیگر تمام عبادات اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرنے،اس کی طرف رجوع کرنے،محض اسی کی تعظیم اور بزرگی کو بیان کرنے اور اطاعت وفرمانبرداری میں اعضاء کے ساتھ دل کی مطابقت پیدا کرنے کی غرض سے مشروع کی گئی ہیں۔‘‘
اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے روزانہ کے ورد میں جسے ہر مسلمان کو اپنا یومیہ ورد بنانا چاہئے ‘ ایک دعا یہ پڑھتے تھے:
(أَصْبَحْنَا عَلٰی فِطْرَۃِ الْإسْلاَمِ وَکَلِمَۃِ الْإِخْلاَصِ،وَدِیْنِ نَبِیِّنَا مُحَمَّدٍ،وَمِلَّۃِ أَبِیْنَا إِبْرَاہِیْمَ حَنِیْفًا مُّسْلِمًا وَمَاکَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ)
‘’ہم نے فطرت اسلام،کلمۂ اخلاص اور اپنے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین اور اپنے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ملت پر صبح کی۔وہ(ابراہیم علیہ السلام)شرک سے