کتاب: حقیقت شہادتین - صفحہ 49
نے اس سے اعراض نہ کیا۔ اور جب آپ مدینہ منورہ میں انصار رضی اللہ عنہم کے ہاں پہنچے اور آپ کا معاملہ غالب تھا تو وہاں بھی آپ نے توحید کی بات نہ چھوڑی۔اور فتحِ مکہ کے بعد بھی آپ نے اس کا دروازہ بند نہ کیا۔اور جب آپ لوگوں سے قتال پر بیعت طلب کرتے تو آپ صرف اسی پر اکتفاء نہ کرتے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ توحید پر قائم رہنے اور شرک کو پرے پھینکنے پر بھی بیعت کرنے کا مطالبہ فرماتے .... سو یہ ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ اور یہ ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث صحیحہ۔اور ان سب کے پیچھے قرآن مجید کی واضح تعلیمات تھیں جن پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمل کیا۔ اس بناء پر یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ توحید ہی نقطۂ آغاز ہے اور ہر زمانے میں اور ہر جگہ پر توحید ہی سب سے پہلے ہے۔ جہاں تک اسلام کے پانچ بڑے ارکان کا تعلق ہے تو وہ مشروع ہی اسی لئے کیے گئے ہیں کہ ان کے ذریعے توحید کا اعلان ہو،توحید کو ثابت کیا جائے اور عملی طور پر اس کی یاددہانی کرائی جائے۔ چنانچہ پہلا رکن کلمۂ طیبہ ہے اور اس کا پہلا جزو(لاَ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ)تعددِ معبودان کی نفی اور ایک ہی معبود کو ثابت کر رہا ہے۔اور اس کا دوسرا جزو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو ثابت کرنے کے ساتھ ساتھ صرف آپ کی اتباع اور شریعت کا اثبات کر رہا ہے۔ اسلام کا دوسرا رکن نماز ہے جس کا آغاز ہی اللہ تعالیٰ کی بڑائی کے ساتھ ہوتا ہے۔جس سے مقصود یہ ہے کہ اللہ کے مقابلہ میں ہر چیز چھوٹی ہے اور اللہ ہی سب سے بڑا ہے۔ پھر اس کے بعد نماز کے دیگر اذکار اور اس میں قرآن مجید کی تلاوت،خاص طور پرہر رکعت میں﴿إِیَّاکَ نَعْبُدُ وَإِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ﴾کو بار بار پڑھنا توحید ہی کا اقرار ہے۔ تیسرا رکن زکاۃ ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ کی عبادات میں نماز کے ساتھ ساتھ کیا جاتا