کتاب: حقیقت شہادتین - صفحہ 48
نا حق محض اس لئے نکال دئیے گئے کہ انھوں نے کہا:ہمارا رب اللہ ہے۔۔’‘ بعد ازاں جب فتح مکہ کے موقعہ پر بتوں کو توڑ دیا گیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ اعلان کرنے کا حکم دیا:﴿وَقُلْ جَائَ الْحَقُّ وَزَہَقَ الْبَاطِلُ﴾[الإسراء:۸۱] ‘’اور کہہ دیجئے کہ حق آگیا اور باطل مٹ گیا۔’‘ اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کا وقت قریب آیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا:﴿فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْہُ إِنَّہُ کَانَ تَوَّابًا﴾[النصر:۳] ‘’ لہذاآپ اپنے رب کی تسبیح بیان کیجئے،اس کی حمد وثناء کیجئے اور اس سے مغفرت طلب کیجئے،یقینا وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے۔’‘ حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مرض الموت میں بھی شرک سے ڈرایا جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا و حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم مرض الموت میں مبتلا تھے تواسی دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی بار فرمایا: (لَعْنَۃُ اللّٰهِ عَلَی الْیَہُوْدِ وَالنَّصَارٰی،إِتَّخَذُوْا قُبُوْرَ أَنْبِیَائِہِمْ مَّسَاجِدَ) ‘’یہود ونصاریٰ پر اﷲ کی لعنت ہو جنہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا۔‘‘[صحیح البخاری۔الصلاۃ،باب:حدّثنا أبو الیمان۔۴۳۵] خلاصہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا کوئی حصہ ایسا نہیں گذرا کہ جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے توحید کا اعلان نہ کیا ہو اور جس میں شرک اور اس کی مختلف شکلوں کے خلاف جنگ نہ کی ہو۔بلکہ اگر ہم یوں کہیں کہ آپ کی پوری بعثت اسی میں منحصر تھی تو یہ بے جا نہ ہو گا،کیونکہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے تھے تو اس وقت بھی آپ توحیدِ الٰہی کو ثابت کرتے رہے۔اور جب گھاٹی میں محصور تھے تو تب بھی اس سے غافل نہ رہے۔اور جب آپ ہجرت کر رہے تھے اور دشمن آپ کو تلاش کرتے پھر رہے تھے تو تب بھی آپ