کتاب: حقیقت شہادتین - صفحہ 47
مبارکہ کا تعلق ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی زندگی،اول سے لے کر آخر تک،مکی ہو یا مدنی،سفر کی ہو یا حضر کی،جنگ کی ہو یا امن کی،پوری کی پوری زندگی توحید میں گذری۔اور ابتدائے وحی میں ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو(اور آپ کے ذریعے آپ کی امت کو)حکم دیا گیا کہ:﴿وَالرُّجْزَ فَاہْجُرْ﴾[المدثر:۵]’’اور نا پاکی(بتوں کی پوجا)سے کنارہ کش ہو جائیے۔’‘ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے رشتہ داروں کو بھی شرک سے ڈرانے کا حکم دیا:﴿فَلاَ تَدْعُ مَعَ اللّٰہِ إِلٰہاً آخَرَ فَتَکُوْنَ مِنَ الْمُعَذَّبِیْنَ ٭ وَأَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْأقْرَبِیْنَ﴾[الشعراء:۲۱۳۔۲۱۴] ترجمہ:’’پس آپ اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو مت پکاریں،ورنہ آپ ان لوگوں میں شامل ہو جائیں گے جنہیں عذاب دیا جائے گا۔ اور آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو بھی ڈرائیے۔‘‘ اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھلے عام دعوت دینے کا حکم دیا گیاتو اس میں بھی یہ بات شامل تھی کہ آپ مشرکوں سے اعراض کیجئے: ﴿فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِکِیْنَ﴾[الحجر:۹۴] ترجمہ:’’پس آپ کو جو حکم دیا جا رہا ہے اسے کھول کر بیان کر دیجئے اور مشرکوں سے اعراض کیجئے۔’‘ پھر جب ہجرت کا حکم نازل ہوا تو اس میں یہ بھی تھا کہ﴿لاَ تَحْزَنْ إِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا﴾[التوبۃ:۴۰]’’غم نہ کرو،بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے۔’‘اس کے بعد جب جہاد اور قتال کا حکم آیا تو اس میں فرمایا:﴿اَلَّذِیْنَ أُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِہِمْ بِغَیْرِ حَقٍّ إِلاَّ أَنْ یَّقُوْلُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ﴾[الحج:۴۰]’’جو لوگ اپنے گھروں سے