کتاب: حقیقت شہادتین - صفحہ 270
لاَ أَنْ رَّأیٰ بُرْہَانَ رَبِّہٖ﴾’’چنانچہ اس عورت نے یوسف(علیہ السلام)کا قصد کیا اور وہ بھی اس کا قصد کر لیتے اگر اپنے رب کی برہان نہ دیکھ لیتے۔’‘یعنی انھوں نے اپنے رب کی برہان کو دیکھا اور وہ تھی اس کی توحید،اس کی تعظیم اور اس کا خوف۔ اس میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے کہ بندۂ مومن جب اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے تو اس سے برائی اور بے حیائی کو دور کردیا جاتا ہے۔او رہم نے ایسے کئی لوگ دیکھے ہیں جن کے سامنے شیطان نے بے حیائی کے کام کو مزین کیا لیکن اللہ تعالیٰ نے ان پر فضل وکرم کیا اور انھیں اس سے محفوظ رکھا۔ اسی طرح توحید کا ایک اور فائدہ یہ ہے کہ جب لوگوں پر مصائب ٹوٹ پڑتے ہیں تو ان میں نجات پانے والے صرف اہلِ توحید ہوتے ہیں۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿وَأَمَّا ثَمُوْدُ فَہَدَیْنَاہُمْ فَاسْتَحَبُّوْا الْعَمٰی عَلَی الْہُدٰی فَأَخَذَتْہُمْ صَاعِقَۃُ الْعَذَابِ الْہُوْنِ بِمَا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ ٭ وَنَجَّیْنَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا وَکَانُوْا یَتَّقُوْنَ﴾[فصلت:۱۷۔۱۸] ترجمہ:’’رہے ثمود تو انھیں ہم نے سیدھی راہ دکھائی،مگر انھوں نے راہ دیکھنے کے مقابلے میں اندھا رہنا پسند کیا۔آخر انھیں ایک کڑک کی صورت میں ذلت کے عذاب نے پکڑ لیا جو ان کی کرتوتوں کا بدلہ تھا۔اور ہم نے ان لوگوں کو بچا لیا جو ایمان لائے اور وہ پرہیز گار تھے۔’‘ اگر دنیا میں اہلِ توحید بھی بعض مصائب میں مبتلا ہوں تو روزِ قیامت یقینا اللہ تعالیٰ انھیں ان کے عقیدے اور ان کے اعمال کے مطابق اٹھائے گااور انھیں اس دن کی ہولناکیوں اور اس دن کے عذاب سے محفوظ رکھے گا،کیونکہ وہ کسی پر کچھ بھی ظلم نہیں کرتا۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: