کتاب: حقیقت شہادتین - صفحہ 258
جشن میلاد منانے والوں میں سے کئی لوگ بعض ایسے دلائل بھی پیش کرتے ہیں جنہیں وہ برحق تصور کرتے ہیں حالانکہ وہ حقیقت میں ایسے ہیں جیسے چٹیل میدان میں سراب(چمکتی ہوئی ریت)ہو جسے دور سے دیکھنے والا پیاسا آدمی پانی سمجھ لیتا ہے لیکن وہ جب اس کے قریب آتا ہے تو وہاں کچھ بھی نہیں پاتا۔ان دلائل میں سے بعض تو وہ نصوص ہیں جو غیر صریح ہیں اور ان کا مفہوم بگاڑ کر پیش کیا گیا ہے۔اور بعض دلائل سرے سے ضعیف ہیں جو قابل حجت ہی نہیں ہیں۔ چنانچہ ان دلائل میں سے ایک اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے: ﴿قُلْ بِفَضْلِ اللّٰہِ وَبِرَحْمَتِہٖ فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوْا﴾[یونس:۵۸] ‘’آپ کہہ دیجئے کہ انھیں اللہ کے فضل اور اس کی رحمت پر خوش ہونا چاہئے۔’‘ اس آیتِ کریمہ میں اللہ کی رحمت پر خوش ہونے کا حکم دیا گیا ہے اور اس کی سب سے بڑی رحمت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَمَا أَرْسَلْنَاکَ إِلاَّ رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْنَ﴾[الأنبیاء:۱۰۷] ‘’ اور ہم نے آپ کو تمام جہان والوں کیلئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔‘‘ ہم ان کی اس دلیل کے جواب میں گذارش کرتے ہیں کہ مذکورہ آیت ِ کریمہ کا یہ مفہوم سلف صالحین میں سے کسی نے بھی بیان نہیں کیا ہے۔اگر اس کا مفہوم یہی ہوتا تو وہ یقینا اسے بیان کرنے میں ہم سے سبقت لے جاتے۔لہذا کسی آیت کا ایسا مفہوم جو سلف صالحین کے ادوار میں بیان نہیں کیا گیا وہ مردود اور ناقابلِ قبول ہے۔سلف صالحین کی تفسیروں میں اس آیت ِ کریمہ کا مفہوم یہ بیان کیا گیا ہے کہ اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے مراد اسلام اور سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے جیسا کہ علامہ ابن القیم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب(اجتماع الجیوش الإسلامیۃ علی غزو المعطلۃ والجہمیۃ)