کتاب: حقیقت شہادتین - صفحہ 256
عبادات کے اوقات کی طرح اس کا وقت بھی مقرر کردیاجاتا۔ پھر اگر ہم یہ مان بھی لیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ماہِ ربیع الأول میں ہوئی تو دوسری طرف یہ بھی تو ایک حقیقت ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات بھی ماہِ ربیع الأول میں ہوئی۔ لہذا اگر آپ کی پیدائش کے حوالے سے خوشی منائی جاتی ہے تو پھر آپ کی وفات کے حوالے سے غم اور افسوس کا دن بھی منایا جانا چاہئے اور اس بات کا کوئی بھی قائل نہیں۔ بہر حال یہ مسئلہ الحمد للہ بالکل واضح ہے خصوصا اس شخص کیلئے جو انصاف کی نظر سے بحث وتمحیص کرتا ہے اور تحقیق کو اپنا شیوہ بناتے ہوئے اندھی تقلید سے اجتناب کرتا ہے اور جب ہم جشن میلاد کی محفلوں کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں ان میں کئی مفاسد نظر آتے ہیں جن میں سے چند مفاسد درج ذیل ہیں: 1.اس محفل کو اللہ کے تقرب کا ذریعہ تصور کرنا جبکہ ہم یہ بات پہلے عرض کر چکے ہیں کہ عبادا ت توقیفی ہیں جو بغیر دلیل کے ثابت نہیں ہوتیں۔ 2. ایسی محفلوں میں عام طور پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح وثناء کی جاتی ہے اور کاش کہ یہ مدح وثناء ان فضائل ومناقب کی حد تک ہوتی جو قرآن مجید اور صحیح احادیثِ نبویہ کے دلائل سے ثابت ہیں۔لیکن ایسا نہیں ہوتا،بلکہ ہوتا یہ ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح وثناء میں اس حد تک غلو کیا جاتا ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ کے مرتبہ تک پہنچا دیا جاتا ہے اور شرکائے محفلِ میلاد خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی دعا مانگنے لگتے ہیں جیسا کہ بوصیری اپنے قصیدہ بردۃ میں کہتا ہے: یَا أَکْرَمَ الْخَلْقِ مَا لِیْ مَنْ أَلُوْذُ بِہٖ سِوَاکَ عِنْدَ حُلُوْلِ الْحَادِثِ الْعِمَمِ ‘’اے وہ جو کہ مخلوق میں سب سے زیادہ معزز ومکرم ہے ! میرے لئے تیرے سوا