کتاب: حقیقت شہادتین - صفحہ 255
ہے۔والعیاذ باللہ
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا:(إِنَّہُ لَمْ یَکُنْ نَّبِیٌّ قَبْلِیْ إِلاَّ کَانَ حَقًّا عَلَیْہِ أَنْ یَّدُلَّ أُمَّتَہُ عَلٰی خَیْرِ مَا یَعْلَمُہُ لَہُمْ)[مسلم:۱۸۴۴]
ترجمہ:’’مجھ سے پہلے جو بھی نبی آیا ہر ایک پر یہ ضروری تھا کہ وہ اپنی امت کو ہر اس خیر کے بارے میں بتلائے جس کو وہ جانتا ہے۔’‘
ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو کہ خاتم الأنبیاء اور سید الرسل ہیں اور ان میں سے اپنی امت کے حق میں سب سے زیادہ خیر خواہ،سب سے زیادہ وضاحت کرنے والے اور سب سے زیادہ فصاحت وبلاغت والے ہیں،اگر یہ عمل خیر کا باعث اور تقرب الی اللہ کا ذریعہ ہوتا تو اپنی امت کو اس کے بارے میں آگاہ کرتے اور اس کی ترغیب دلاتے۔جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں کچھ بھی منقول نہیں تو ہمیں یقین ہو جانا چاہئے کہ اس عمل میں کوئی خیر نہیں ہے چہ جائے کہ یہ تقرب الی اللہ کا ذریعہ ہو۔
اس کے علاوہ ہم میلاد منانے والوں سے پوچھتے ہیں کہ آپ کونسے دن میں میلاد مناتے ہیں جبکہ اہلِ علم کے درمیان رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت با سعادت کے دن کے بارے میں تو اختلاف پایا جاتا ہے ! ان میں سے بعض یہ کہتے ہیں کہ آپ کی پیدائش ماہِ رمضان المبارک میں ہوئی،بعض کے نزدیک آٹھ ربیع الأول کو اور بعض کے نزدیک بارہ ربیع الأول کو ہوئی تو آپ کس طرح بارہ ربیع الأول ہی کو میلاد مناتے ہیں ؟
حقیقت یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخِ ولادت میں جو اختلاف پایا جاتا ہے وہ اس بات کی دلیل ہے کہ شریعت میں میلاد کی کوئی حیثیت نہیں،کیونکہ اگر اس کی کوئی حیثیت ہوتی تو مسلمانوں میں تاریخِ ولادت کے متعلق کوئی اختلاف نہ ہوتا اور دیگر