کتاب: حقیقت شہادتین - صفحہ 254
پسند کرتے تھے اور نہ ہی یہ تقرب الٰہی کے حصول کا ذریعہ تھا،بلکہ یہ ایک بدعت تھی جس سے سب سے افضل تین صدیوں کے لوگوں(صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم،تابعین رحمہم اللہ،تبع تابعین رحمہم اللہ اور علماءِ اسلام)نے اجتناب کیا۔وہ صدیاں اس سے کلی طور پر خالی نظر آتی ہیں .... اس سے صاحبِ بصیرت اور عقلمند لوگوں کی آنکھیں کھل جانی چاہئییں جو کہ اس عمل کو مشروع سمجھ بیٹھے ہیں۔ یہ جو ہم نے ذکر کیا ہے کہ پہلی تین صدیوں میں سلف صالحین رحمہم اللہ نے جشن میلاد نہیں منایا اس پر مسلمانوں کے تمام علماء کا اتفاق ہے۔جو جشن میلاد کے قائل ہیں وہ بھی اور جو قائل نہیں ہیں وہ بھی،سب کے سب متفق ہیں کہ قرون اولی میں اس کا وجود نہیں تھا۔اسے چوتھی صدی میں بنی عبید القداح نے ایجاد کیا تھا جنہیں فاطمی کہا جاتا تھا اور جو اسماعیلی باطنی فرقے سے تعلق رکھتے تھے اور ان کی گمراہی علمائے اسلام کے ہاں واضح تھی۔ان میں بدعات اور منکرات کے علاوہ کفریہ عقائد بھی تھے۔اس لئے وہ قطعا اس بات کے اہل نہیں کہ ان کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے جشن میلاد منایا جائے۔ علاوہ ازیں اللہ رب العزت نے ہمارا دین مکمل کردیا تھا اوراپنی نعمت پوری کردی تھی جیسا کہ اس کا فرمان ہے:﴿اَلْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْإِسْلاَمَ دِیْنًا﴾[المائدۃ:۳] ترجمہ:’’آج میں نے تمہارے لئے تمہار دین مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر پوری کردی ہے۔اور میں نے تمہارے لئے اسلام کو بطور دین پسند کرلیا ہے۔‘‘ لہذا دین میں جشن میلاد کو ایجاد کرنا گویا کہ اللہ تعالیٰ پر استدارک اوراس بات کا دعوی کرنا ہے کہ دین مکمل نہیں تھا،یہاں تک کہ متاخر زمانے میں وہ لوگ آئے جنہوں نے اسے مکمل کیا۔یہ بلا شک قرآن مجید کی اس آیتِ کریمہ کو جھٹلانے کے مترادف