کتاب: حقیقت شہادتین - صفحہ 253
نے آپ کی سیرت طیبہ اور سنن مطہرہ کو پوری امانت کے ساتھ ہماری طرف منتقل کیا اور کوئی ایسی سنت نہ تھی جس کو انھوں نے منتقل نہ کیا ہوحتی کہ انھوں نے ہمیں یہ بھی بتایا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے آغاز میں دعائے استفتاح پڑھتے تو آپ کی داڑھی مبارک حرکت کرتی تھی۔لہذا یہ ناممکن ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں میلاد منایا گیا ہو اور اسے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے ہماری طرف نقل نہ کیا ہو جبکہ اسے نقل کرنے کے تمام وسائل موجود تھے۔
پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سب سے افضل زمانہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا تھا۔جب ہم اُس دور کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جن لوگوں کو سب سے زیادہ محبت تھی ان میں سے کسی نے بھی جشن میلاد نہیں منایا۔نہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے،نہ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے،نہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے اور نہ ہی حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے جوکہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد اور چچا زاد بھائی اور آپ کے نواسوں کے باپ تھے۔اور نہ ہی ان کے علاوہ کسی اور صحابی نے میلاد کی مناسبت سے کوئی جشن منایا۔اسی طرح تابعین رحمہم اللہ اور تبع تابعین رحمہم اللہ نے بھی اس دن کوئی اہتمام نہ کیا۔اس طرح پہلی تین صدیوں میں ہمیں اس عمل کا کہیں بھی ثبوت نہیں ملتا حالانکہ اُس دور میں وہ لوگ اگرجشن میلاد منانا چاہتے تو منا سکتے تھے کیونکہ انھیں اس سے ظاہری طور پر کوئی مانع نہیں تھا۔اور ان لوگوں میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے محبت بھی ہم سے زیادہ تھی،اس کے باوجود انھوں نے جشن میلاد نہ منایا۔یقینا اس کی کوئی اور وجہ ہو گی۔وہ وجہ تھی ایک مانعِ شرعی کا پایا جانا اور وہ یہ تھا کہ اسے نہ اللہ تعالیٰ نے مشروع کیا تھا اور نہ ہی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی ترغیب دلائی تھی،نہ اسے اللہ اور اس کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم