کتاب: حقیقت شہادتین - صفحہ 247
والے ہیں اور یہ بھی موت کا شکار ہونے والے ہیں۔‘‘
نیز فرمایا:﴿وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِکَ الْخُلْدَ أَفَإِنْ مِّتَّ فَہُمُ الْخَالِدُوْنَ کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَۃُ الْمَوْتِ﴾[الأنبیاء:۳۴۔ ۳۵]
ترجمہ:’’اور آپ سے پہلے کسی انسان کو بھی ہم نے ہمیشگی نہیں دی۔کیا آپ فوت ہو گئے تو وہ ہمیشہ کیلئے زندہ رہیں گے ؟ ہر جاندار کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔‘‘
اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم(کی وفات کے وقت)آپ کے سامنے پانی سے بھرا ہوا ایک پیالہ رکھا ہوا تھا۔آپ پانی میں اپنے ہاتھ داخل کرتے اور اپنے چہرے پر پھیرتے ہوئے فرماتے:(لاَ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ إِنَّ لِلْمَوْتِ لَسَکَرَاتٍ)یعنی’’اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں،یقینا موت کی سختیاں ہوتی ہیں’‘ پھر آپ نے اپنے ہاتھوں کو اوپر اٹھایا اور فرمانے لگے:(فِیْ الرَّفِیْقِ الْأَعْلٰی)یہاں تک کہ آپ کی روح قبض کر لی گئی اور آپ کے ہاتھ ڈھیلے پڑ گئے۔[بخاری:۴۴۴۹]
٭اور ان میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی سنتِ صحیحہ سے اعراض کرتے ہوئے آپ کی بعض ان احادیث کو ماننے سے انکار کردیا جو ان کے زعم کے مطابق عقل کے خلاف ہیں۔انھوں نے عقل کو نقل پر فوقیت دی اور سنت نبویہ کو پیٹھ پیچھے پھینک دیا حالانکہ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ کوئی صحیح حدیث عقل سلیم کے خلاف ہو۔ جس شخص کو یہ وہم ہوکہ فلاں حدیث عقل کے خلاف ہے تو وہ اپنی عقل کا ہی علاج کرے کیونکہ صحیح حدیث بہر حال عقل پر مقدم ہے۔
اور ایسے لوگ یقینا گمراہ کن سوچ وفکر رکھتے ہیں جو کہ محمد رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گواہی کے تقاضوں کے خلاف ہے۔
ہم اس سے پہلے ایسی سوچ وفکر کے رد میں کئی دلائل ذکر کرچکے ہیں اور امام