کتاب: حقیقت شہادتین - صفحہ 245
مبارک کے شمال کی طرف دو اور دیواریں بنا دیں تاکہ کوئی شخص اس کی طرف رخ نہ کرسکے۔‘‘[المفہم لما أشکل من تلخیص کتاب مسلم للقرطبی:۲/۱۲۸] اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا قبول کرتے ہوئے آپ کی قبر مبارک کی حفاظت فرمائی جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کرتے ہوئے فرمایا:(اَللّٰھُمَّ لاَتَجْعَلْ قَبْرِیْ وَثَنًا یُعْبَدُ)[مؤطأامام مالک:۴۱۴] ’’اے اﷲ! میری قبر کو بُت نہ بنانا جس کی لوگ پرستش کریں۔‘‘ جو شخص بھی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کی طرف متوجہ ہوتا ہے اس کا یہ اعتقاد ہوتا ہے کہ وہ قبر کی طرف متوجہ ہے ورنہ حقیقت میں اس کیلئے یہ نا ممکن ہے کہ وہ آپ کی قبر تک پہنچ سکے یا اس کے سامنے کھڑا ہو کر اس کی طرف رخ کر سکے۔ شیخ الإسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک تک پہنچنا نہ تو ممکن ہے اور نہ ہی اس کا حکم دیا گیا ہے کیونکہ تین دیواروں کے ساتھ اس کا احاطہ کردیا گیا ہے۔ [کتاب الرد علی الأخنائی واستحباب زیارۃ خیر البریۃ،ابن تیمیہ:۱۳۰] اور ان میں سے بعض لوگ غلو کرتے ہوئے یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم غیب کا علم رکھتے ہیں،حتی کہ آپ کو ان کے احوال بھی معلوم ہیں۔یہ اعتقاد دراصل اللہ کی کتاب کو اور خود اللہ تعالیٰ کو جھٹلانے کے مترادف ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ تو یہ فرماتا ہے کہ﴿قُلْ لاَّ یَعْلَمُ مَنْ فِیْ السَّمٰوٰتِ وَالْأرْضِ الْغَیْبَ إِلاَّ اللّٰہُ وَمَا یَشْعُرُوْنَ أَیَّانَ یُبْعَثُوْنَ﴾[النمل:۶۵] ترجمہ:’’آپ کہہ دیجئے کہ آسمانوں اور زمین میں غیب کو اللہ کے سوا کوئی بھی نہیں جانتا۔اور وہ تو یہ بھی نہیں جانتے کہ انھیں کب اٹھایا جائے گا۔‘‘ نیز فرمایا:﴿وَلِلّٰہِ غَیْبُ السَّمٰوٰتِ وَالْأرْضِ﴾[ہود:۱۲۳]