کتاب: حقیقت شہادتین - صفحہ 24
اور آپ کواس وقت بھیجا جبکہ کتابوں کا علم ختم ہو چکا تھا،اللہ کے کلمات میں تحریف کی جا چکی تھی،شریعتوں کو تبدیل کردیا گیا تھا اور ہر قوم نے اپنی ظالمانہ آراء کو سند بنا لیا تھا۔اور وہ اللہ کے بندوں کے درمیان اپنے فاسد نظریات کے ساتھ فیصلے کرتے تھے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیج کر مخلوق کی راہنمائی فرمائی اور ان کیلئے راہِ نجات کو واضح فرمایا۔اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے لوگوں کو اندھیروں سے نکالا اور انھیں روشنی دکھائی۔اور عقل وبصیرت سے اندھے لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے فہم وبصیرت نصیب کی اور انھیں گمراہی اور ظلم سے نکال کر سیدھا راستہ دکھلایا۔اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے نیک اور برے لوگوں میں فرق واضح کیا۔اور اس نے ہدایت اور کامرانی وکامیابی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع و موافقت میں رکھ دی۔اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت اور نا فرمانی کو گمراہی اور بدبختی قرار دیا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مومنوں کیلئے انتہائی شفیق اور مہربان ہیں،تمام لوگوں کی ہدایت کے خواہشمند ہیں اور ان کا عناد اور کفر وضلال پر ان کی ہٹ دھرمی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بہت شاق گذرتی ہے۔فرمان الٰہی ہے: ﴿لَقَدْ جَائَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ أَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَؤُفٌ رَّحِیْمٌ﴾[التوبۃ:۱۲۸] ترجمہ:’’تمہارے پاس ایک ایسے پیغمبر تشریف لائے ہیں جو تم میں سے ہی ہیں،جن کو تمہاری مضرت کی بات نہایت گراں گذرتی ہے،جو تمہاری منفعت کے ہمیشہ خواہشمند رہتے ہیں اور ایمان والوں کیلئے بڑے ہی شفیق اور مہربان ہیں۔’‘