کتاب: حقیقت شہادتین - صفحہ 236
انتقال ہو گیا اور مدینہ کے ارد گرد بسنے والے کئی عرب قبائل مرتد ہو گئے۔تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ایک وفد کی شکل میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہنے لگے:اے ابو بکر ! اس لشکر کو واپس بلا لیجئے،یہ شام کی طرف متوجہ ہے اور اِدھر مدینہ کے آس پاس عرب قبائل مرتد ہو رہے ہیں۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا:اس اللہ کی قسم جس کے علاوہ اور کوئی معبود برحق نہیں ! اگر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کی حفاظت کرنے والا بھی کوئی نہ بچے تو میں تب بھی اس لشکر کو واپس آنے کا حکم نہیں دے سکتا جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روانہ فرمایا تھا۔اور نہ ہی میں وہ جھنڈا سرنگوں کر سکتا ہوں جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لہرایا تھا۔ اس کے بعد انھوں نے لشکر اسامہ کو سفر جاری رکھنے کا حکم دیا۔ چنانچہ ان کا جس قبیلے سے بھی گذر ہوتا اورجو مرتد ہونے کا سوچ رہا ہوتا اس قبیلے کے لوگ کہتے:اگر ان لوگوں کے پاس طاقت نہ ہوتی تو یہ اپنے گھروں سے نہ نکلتے،اس لئے انھیں چھوڑ دو یہاں تک کہ ان کی رومیوں سے لڑائی ہو۔چنانچہ اس لشکر کی اہلِ روم سے لڑائی ہوئی،مسلمانوں نے رومیوں کو شکست سے دوچار کیا،ان میں سے کئی لوگوں کو قتل کیا اور صحیح سالم واپس لوٹ آئے۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جو لوگ مرتد ہونے کا سوچ رہے تھے وہ اسلام پر ثابت قدم رہے۔[الاعتقاد والہدایۃ إلی سبیل الرشاد إلی مذہب السلف أہل السنۃ والجماعۃ للبیہقی،ص:۴۲۲] 7. حضرت رفاعۃ بن رافع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ منبر پر کھڑے ہوئے اور رونا شروع کردیا۔پھر فرمایا:ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی طرح منبر پر کھڑے ہوئے اور رونا شروع کردیا،اس کے بعد آپ نے ارشاد فرمایا: ‘’تم لوگ اللہ سے درگذر اور عافیت کا سوال کرو کیونکہ کسی کو ایمان کے بعد عافیت