کتاب: حقیقت شہادتین - صفحہ 235
بندے کو اختیار دیا ہے کہ اگر وہ چاہے تو اسے اس کی منشاء کے مطابق دنیا کی رونق دے دے یا اسے وہ نعمتیں دے دے جو اس کے پاس ہیں۔تو اس بندے نے ان نعمتوں کو اختیار کر لیا ہے جو اللہ کے پاس ہیں۔اور یہ(ابو بکر رضی اللہ عنہ)یہ کہتے ہیں کہ ہمارے ماں باپ آپ پر قربان ہوں !
چنانچہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی وہ بندے تھے جنہیں اختیار دیا گیا تھا اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ہماری نسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ جاننے والے تھے۔تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا:(إِنَّ مِنْ أَمَنِّ النَّاسِ عَلَیَّ فِیْ صُحْبَتِہٖ وَمَالِہٖ أَبَا بَکْرٍ،وَلَوْ کُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِیْلاً مِنْ أُمَّتِیْ لَاتَّخَذْتُ أَبَا بَکْرٍ،إِلاَّ خُلَّۃَ الْإِسْلاَمِ،لاَ یَبْقَیَنَّ فِیْ الْمَسْجِدِ خَوْخَۃٌ إِلاَّ خَوْخَۃُ أَبِیْ بَکْرٍ)
ترجمہ:’’اپنی رفاقت اور اپنے مال میں لوگوں میں سے سب سے زیادہ ابو بکر(رضی اللہ عنہ)نے مجھ پر احسان کیا۔اور اگر مجھے اپنی امت کے کسی شخص کو خلیل(دوست)بنانا ہوتا تو میں ابو بکر(رضی اللہ عنہ)کو خلیل(دوست)بناتا۔لیکن اب ہم میں اسلام کی دوستی ہے۔مسجد نبوی میں کسی شخص کا دروازہ(کھلا)نہ رہے سوائے ابو بکر(رضی اللہ عنہ)کے دروازے کے۔‘‘[بخاری:۳۹۰۴،مسلم:۲۳۸۱]
6. ایک مرتبہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا:اس اللہ کی قسم جس کے علاوہ اور کوئی معبود برحق نہیں ! اگر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو خلیفہ نہ بنایا جاتا تو آج اللہ کی عبادت کرنے والا کوئی نہ ہوتا۔پھر انھوں نے یہی بات دوسری اور تیسری مرتبہ بھی کہی۔لوگوں نے کہا:بس کرو ابو ہریرہ۔تو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا:رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو سات سو فوجیوں کا سپہ سالار بنا کر شام کی طرف روانہ فرمایا۔جب اس لشکر نے(ذو خشب)مقام پر پڑاؤ ڈالا تو اِدھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا